Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 45
اُتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ
اُتْلُ
: آپ پڑھیں
مَآ
: جو
اُوْحِيَ
: وحی کی گئی
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
مِنَ الْكِتٰبِ
: کتاب سے
وَاَقِمِ
: اور قائم کریں
الصَّلٰوةَ ۭ
: نماز
اِنَّ
: بیشک
الصَّلٰوةَ
: نماز
تَنْهٰى
: روکتی ہے
عَنِ الْفَحْشَآءِ
: بےحیائی سے
وَالْمُنْكَرِ ۭ
: اور برائی
وَلَذِكْرُ اللّٰهِ
: اور البتہ اللہ کی یاد
اَكْبَرُ ۭ
: سب سے بڑی بات
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
مَا تَصْنَعُوْنَ
: جو تم کرتے ہو
اس کی تلاوت کر جو کتاب میں سے تیری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کر، بیشک نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقینا اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ۔۔ : مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا تھا اور انھیں ایمان پر ثابت قدم رہنے میں جو مشکلات پیش آرہی تھیں سورت کے شروع سے یہاں تک انھیں ان مشکلات کو برداشت کرنے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی سنت بیان کی گئی۔ اس کے نمونے کے لیے پہلے اولو العزم پیغمبروں کی آزمائش اور ان کی قوموں کے شدید معاندانہ رویے پر ان کے صبر کو بیان کیا گیا، ساتھ ہی نافرمان اقوام کا عبرت ناک انجام ذکر کیا گیا۔ مقصد مسلمانوں کو تسلی دینا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کی تلقین ہے۔ اب وہ عملی تدبیر بتائی جس سے مومن میں وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ باطل کے مقابلے میں کھڑا رہ سکتا ہے اور اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے احکام پر کار بند رہ سکتا ہے جب ہر طرف بےحیائی اور برائی کا دور دورہ اور اس کی زبردست اشاعت اور ترغیب موجود ہو۔ اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ : اس مقصد کے لیے پہلا حکم کتاب اللہ کی تلاوت ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ دوسرے مقامات پر دوسرے لوگوں کو پڑھ کر سنانے کا حکم ہے، مثلاً سورة مائدہ میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ) [ المائدۃ : 27 ] ”اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر۔“ سورة اعراف میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا) [ الأعراف : 175 ] ”اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا۔“ سورة یونس میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نوح) [ یونس : 71 ] ”اور ان پر نوح کی خبر پڑھ۔“ اور سورة شعراء میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابراھیم) [ الشعراء : 69 ] ”اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔“ مگر اس مقام پر مطلق تلاوت کا حکم ہے، جس میں سب سے پہلے خود تلاوت کا حکم ہے، پھر تمام لوگوں کے لیے تلاوت کا حکم ہے، ایک اور مقام پر بھی اسی طرح مطلق تلاوت کا حکم ہے، فرمایا : (وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ڝ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا) [ الکہف : 27 ] ”اور اس کی تلاوت کر جو تیری طرف تیرے رب کی کتاب میں سے وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے سوا تو کبھی کوئی پناہ کی جگہ پائے گا۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو سننے اور اس کی تلاوت سے دل کو سکون و ثبات حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ڔ كَذٰلِكَ ڔ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا) [ الفرقان : 32 ] ”اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ قرآن اس پر ایک ہی بار کیوں نہ نازل کردیا گیا ؟ اسی طرح (ہم نے اتارا) تاکہ ہم اس کے ساتھ تیرے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا، خوب ٹھہر کر پڑھنا۔“ قرآن کی تلاوت ہی سے دل میں ایمان، کردار کی پختگی اور مصائب و مشکلات برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے اور یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ جس شاعر یا مصنف کا کلام بار بار پڑھا جائے آدمی کو اس سے محبت ہوجاتی ہے، اس لیے قرآن کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، پھر اس میں مذکور اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی صفات، اس کے احکام و مواعظ اور پہلی امتوں اور پیغمبروں کے واقعات بار بار پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا دین ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتا ہے، جس سے اس پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔ رات کے قیام میں اس کی تلاوت کی برکات کا تو شمار ہی نہیں۔ (دیکھیے سورة مزمل) اس طرح کثرت تلاوت کے ساتھ قرآن سینے میں محفوظ ہوجاتا اور محفوظ رہتا ہے، جس پر آدمی خود بھی عمل کرسکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت و تبلیغ کرسکتا ہے اور اس کی تعلیم دے سکتا ہے، اگر اس کی تلاوت میں سستی کی جائے تو یہ بہت جلد سینے سے نکل جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (تَعَاہَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الْإِبِلِ فِيْ عُقُلِہَا) [ بخاري، فضائل القرآن، باب استذکار القرآن و تعاھدہ : 5033 ] ”قرآن کا دھیان رکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ اس سے بھی جلدی چھوٹ کر نکل جاتا ہے جتنی جلدی اونٹ اپنی رسیوں میں سے نکل جاتے ہیں۔“ بڑے ہی بدنصیب ہیں وہ لوگ جو قرآن کو محض ایک خط قرار دے کر اس کی تلاوت کو بےکار مشغلہ قرار دیتے ہیں۔ 3 اگرچہ قرآن کی تلاوت جس طرح بھی ہو فائدے اور ثواب سے خالی نہیں، مگر اس کا حقیقی فائدہ تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب اسے سمجھ کر پڑھا جائے، کیونکہ اس کے بغیر اس پر تدبر ممکن نہیں، جو اس کا اصل مقصد ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا) [ محمد : 24 ] ”تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا کچھ دلوں پر ان کے قفل پڑے ہوئے ہیں ؟“ سمجھ کر پڑھنے ہی سے آدمی اس پر عمل کرسکتا ہے اور اسی سے اس میں باطل سے مقابلے کا جذبہ اور اس کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اکثر اہل کتاب کی بربادی کا باعث یہی ہوا کہ وہ تعلیم اور عمل کے بغیر تورات کے لفظوں کی تلاوت پر قانع ہوگئے۔ دیکھیے سورة بقرہ کی آیت (78) کی تفسیر۔ آج کل مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے۔ کتاب اللہ کی تلاوت میں اس کا لوگوں کو سنانا اور دعوت دینا بھی شامل ہے۔ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ : دوسرا حکم نماز کی اقامت کا ہے، کیونکہ اس سے آدمی میں اپنے رب کے ساتھ وہ تعلق پیدا ہوجاتا ہے جو اس کے لیے ہر مصیبت اور مشکل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ (دیکھیے بقرہ : 45، 46) ”اقامت صلاۃ“ میں صلاۃ سے مراد تمام فرض نمازیں ہیں اور قائم کرنے سے مراد انھیں درست طریقے سے ادا کرنا ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت (3) کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ : ”اِنَّ“ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی نماز قائم کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ نماز ”الفحشاء“ اور ”والمنکر“ سے روکتی ہے۔ ”الفحشاء“ کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو۔ (راغب) مثلاً زنا وغیرہ اور ”المنکر“ وہ قول و عمل جس کا انسانی فطرت اور عقل انکار کرتی ہو۔ نماز کے بےحیائی اور برائی سے روکنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ نماز میں یہ تاثیر ہے کہ اس سے انسان بےحیائی اور برائی سے باز آجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز کا نمازی سے تقاضا یہ ہے کہ وہ بےحیائی اور برائی سے باز آجائے۔ یہ دونوں مطلب درست ہیں اور ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ آدمی جو نماز کو اس کے اوقات پر جماعت کے ساتھ ادا کرے، اس کے ارکان و شروط اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے صحیح طریقے سے ادا کرے، اس میں پڑھی جانے والی فاتحہ اور دوسری دعاؤں کے ذریعے سے دل کی حاضری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرے اور باربار ”رَبِّ اغْفِرْلِيْ“ اور استغفار کی دوسری دعاؤں کے ساتھ بخشش کی درخواست کرے اور اس پر ہمیشگی اختیار کرے، تو یقیناً نماز اسے بےحیائی اور برائی سے روک دے گی۔ ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا : (إِنَّ فُلاَنًا یُصَلِّيْ باللَّیْلِ ، فَإِذَا أَصْبَحَ سَرَقَ قَالَ إِنَّہُ سَیَنْہَاہُ مَا تَقُوْلُ) [ مسند أحمد : 2؍447، ح : 9792، قال المحقق صحیح ] ”فلاں شخص رات نماز پڑھتا ہے، جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”عنقریب اس کا یہ عمل اسے اس کام سے روک دے گا جو تو کہہ رہا ہے۔“ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کئی لوگ نماز ادا کرتے ہیں مگر بےحیائی اور برائی سے باز نہیں آتے ؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ اگر وہ نماز کو اخلاص اور اس کے ارکان و آداب اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے دل کی حاضری کے ساتھ روزانہ پانچ مرتبہ مسجد میں باجماعت ادا کرتے تو یقیناً ان کی نماز انھیں فحشاء اور منکر سے باز رکھتی۔ اگر اس کا یہ اثر ظاہر نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں خلل ہے، دوا کے اجزا پورے نہیں، تبھی شفا نہیں ہوئی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نماز تو کہتی ہے کہ جب تو ہر کام چھوڑ کر مسجد میں آگیا، تیرے باوضو ہونے سے اور تیرے ادا کیے جانے والے الفاظ سے تیرے رب کے سوا کوئی واقف نہیں، پھر بھی تو بےوضو نماز نہیں پڑھتا، نماز میں فضول بات نہیں کرتا، تو جس رب کے ڈر سے نماز میں اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتا ہے نماز کے بعد بھی تجھے اس کے خوف سے ہر بےحیائی اور برائی سے اجتناب لازم ہے۔ نماز بہر حال بےحیائی اور برائی سے منع کرتی ہے، کوئی اس کا کہا نہ مانے تو اس کی مرضی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی بےحیائی اور برائی سے منع کرتا ہے، فرمایا : (وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ) [ النحل : 90 ] ”اور اللہ بےحیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔“ پھر کوئی اس کا حکم مانتا ہے، کوئی نہیں مانتا۔ 3 اس مقام پر کتب تفسیر میں چند احادیث مروی ہیں جو سنداً ثابت نہیں ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں سے وہ روایات اس کے محقق دکتور حکمت بن بشیر کی تحقیق کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں : 1 ابن ابی حاتم نے عمران بن حصین ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ”ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ“ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ لَّمْ تَنْھَہُ صَلَاتُہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ) ”جس شخص کی نماز اسے فحشاء اور منکر سے نہ روکے اس کی کوئی نماز نہیں۔“ اس کی سند میں ایک راوی عمر بن ابی عثمان مجہول ہے۔ 2 ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (مَنْ لَّمْ تَنْھَہُ صَلَاتُہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ لَمْ یَزْدَدْ بِھَا مِنَ اللّٰہِ إِلَّا بُعْدًا) ”جس شخص کی نماز اسے بےحیائی اور برائی سے نہ روکے اس نماز کے ساتھ اس کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوری ہی میں اضافہ ہوگا۔“ یہ روایت لیث بن ابی سلیم راوی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ 3 ابن جریر طبری نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یُطِعِ الصَّلَاۃَ وَطَاعَۃُ الصَّلَاۃِ تَنْھَاہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ) ”جو شخص نماز کی اطاعت نہ کرے اس کی نماز نہیں اور نماز کی اطاعت اسے فحشاء اور منکر سے روکے گی۔“ اس کی سند میں دو راوی جویبر اور حسین (بن داؤد) ضعیف ہیں اور ابن مسعود ؓ سے روایت کرنے والے راوی ضحاک کی ان سے ملاقات ثابت نہیں۔ حافظ ابن کثیر ؓ نے ان تمام روایات کے متعلق فرمایا : ”زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف (صحابہ کے اقوال) ہیں (مگر صحابہ سے بھی اکثر اقوال کی سند کمزور ہے)۔“ یہ روایات جن میں برائی سے نہ روکنے والی نماز کو کالعدم اور اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث بیان کیا گیا ہے، ان کی حقیقت میں نے اس لیے بیان کردی ہے کہ ایسا فتویٰ لگانے والا شخص فتویٰ کی سنگینی پر غور کرے اور اس بات پر بھی کہ وہ نبی ﷺ کے ذمے ایسی بات لگا رہا ہے جو آپ ﷺ سے ثابت نہیں۔ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ : اس کے تین مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور وہ کیوں نہ روکے گی جب کہ وہ اللہ کا ذکر ہے، جیسے فرمایا : (وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ) [ طٰہٰ : 14 ] ”اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔“ اور یقیناً اللہ کا ذکر اور اس کی یاد برائی اور بےحیائی سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز میں ہو یا اس کے بعد، فحشاء اور منکر سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا دھیان اور ہر وقت اسے پیش نظر رکھنا ہی آدمی کو گناہ سے باز رکھتا ہے اور گناہ اسی وقت سر زد ہوتا ہے جب آدمی اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اوپر کے دونوں مطلب اس وقت ہیں جب لفظ ”ذِکْرٌ“ اپنے مفعول کی طرف مضاف مانا جائے اور ترجمہ یہ کیا جائے کہ (بندے کا) اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ تیسرے مطلب کے مطابق لفظ ”ذِکْرٌ“ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے، ترجمہ یہ ہوگا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا (اپنے بندے کو) یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ یعنی نماز میں بندہ اپنے رب کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے تو یہ بڑی بات ہے، لیکن اس کے جواب میں ادھر سے اللہ تعالیٰ جو بندے کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے یہ سب سے بڑی بات ہے۔ یہ تفسیر امام طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے نقل فرمائی ہے۔ اس تفسیر میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے : (فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ) [ البقرۃ : 152 ] ”سو تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری مت کرو۔“ 3 بعض مفسرین نے نماز کے برائی اور بےحیائی سے روکنے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ جتنی دیر آدمی نماز میں رہے گا کم از کم اتنی دیر تو بےحیائی اور برائی سے باز رہے گا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ”جتنی دیر نماز میں لگے اتنا تو ہر گناہ سے بچے، امید ہے آگے بھی بچتا رہے اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے، یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔“ (موضح) بعض لوگوں نے اس تفسیر پر اعتراض کیا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی کئی کام ہیں جن میں مصروف رہنے تک آدمی گناہ سے بچا رہتا ہے، مگر یہ اعتراض بےسود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف نماز ہی بےحیائی سے روکتی ہے۔ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ : یعنی نیک یا بد جو بھی عمل تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور تمہیں اس کی جزا یا سزا دے گا۔ اس میں بشارت بھی ہے اور نذارت بھی۔ یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ آیت کے شروع میں ”اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ“ کے مخاطب اگرچہ نبی کریم ﷺ ہیں، مگر مراد آپ کے ساتھ پوری امت بھی ہے، اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
Top