Al-Quran-al-Kareem - Al-Ahzaab : 34
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠   ۧ
وَاذْكُرْنَ : اور تم یاد رکھو مَا يُتْلٰى : جو پڑھا جاتا ہے فِيْ : میں بُيُوْتِكُنَّ : تمہارے گھر (جمع) مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں وَالْحِكْمَةِ ۭ : اور حکمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے لَطِيْفًا : باریک بین خَبِيْرًا : باخبر
اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔ بیشک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ۔۔ : پچھلی آیات میں امہات المومنین کو عمل کا حکم دیا تھا، جس میں کچھ چیزوں سے اجتناب اور کچھ چیزوں کے ادا کرنے کا حکم تھا، اب انھیں علم حاصل کرنے اور اسے آگے پہنچانے کا حکم دیا۔ ”اذْكُرْنَ“ ”ذِکْرٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی دل میں یاد کرنا اور یاد رکھنا بھی ہے اور کسی کلام کو زبان پر لانا بھی۔ یعنی تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت کی جو تلاوت کی جاتی ہے، اسے یاد کرو اور یاد رکھو، کبھی اس سے غفلت نہ کرو اور اسے دوسرے لوگوں کے سامنے بھی ذکر کرو اور ان تک پہنچاؤ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری یہ تھی کہ اللہ کے احکام امت تک پہنچا دیں۔ آپ ﷺ کے ایک مرد یا ایک عورت تک کوئی حکم پہنچا دینے سے آپ کا فریضہ ادا ہوجاتا تھا، پھر اس مرد یا عورت کا فرض ہوتا کہ اسے آگے پہنچائے، جیسا کہ عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : (بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آیَۃً) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بني إسرائیل : 3461 ] ”میری طرف سے آگے پہنچا دو ، خواہ ایک آیت ہو۔“ امت کے ہر فرد کو ہر حکم بہ نفس نفیس پہنچانا نہ آپ کے ذمے تھا، نہ آپ کے لیے ممکن تھا۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کے بہت سے اقوال و افعال اور احوال ایسے تھے جن کا تعلق گھریلو زندگی سے تھا اور جن کا علم صرف ازواج مطہرات کو ہوتا تھا، اس لیے انھیں آیات و حکمت کو یاد کرنے، انھیں یاد رکھنے اور لوگوں کے سامنے ذکر کرنے کا حکم دیا اور امہات المومنین نے یہ فریضہ نہایت خوش اسلوبی اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔ چناچہ دینی مسائل کا بہت بڑا حصہ انھی کے ذریعے سے امت تک پہنچا ہے۔ صحابہ کرام ؓ کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی وہ ان سے پوچھتے اور انھیں ان کے پاس سے، خصوصاً عائشہ ؓ کے پاس سے اس کا تسلی بخش حل مل جاتا۔ 3 یہ آیت عورتوں کو دین کی تعلیم دلانے کی واضح دلیل ہے، مردوں کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ قرآن و حدیث کا علم حاصل کریں اور اسے آگے پہنچائیں۔ ”اٰيٰتِ اللّٰهِ“ سے مراد قرآن کریم کی آیات ہیں۔ ”وَالْحِكْمَةِ“ کا لفظی معنی دانائی اور عقل کی بات ہے، مراد اس سے قرآن مجید کے علوم اور معانی ہیں جو رسول اللہ ﷺ بیان فرماتے تھے۔ اسی طرح اس میں رسول اللہ ﷺ کے جملہ اقوال و افعال اور احوال بھی شامل ہیں، کیونکہ وہ بھی قرآن کی عملی تفسیر تھے، جیسا کہ عائشہ ؓ نے فرمایا : (کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ) [ مسند أحمد : 6؍91، ح : 24655 ] ”قرآن آپ کا خلق تھا۔“ یعنی قرآن آپ کی طبعی عادت بن چکا تھا کہ آپ کا ہر کام خود بخود قرآن مجید کے مطابق ہوتا تھا۔ اس لیے امام شافعی اور دوسرے ائمہ نے بہت سے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ”وَالْحِكْمَةِ“ سے مراد سنت ہے۔ بعض لوگ اس پر یہ شبہ پیش کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی طرح سنت کی بھی تلاوت ہوتی تھی، مگر یہ شبہ بےکار ہے، کیونکہ تلاوت کے لفظ کو صرف قرآن کی تلاوت کے لیے خاص کرنا بعد کی اصطلاح ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ سورة بقرہ میں یہی لفظ جادو کے ان الفاظ کے متعلق استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین سلیمان ؑ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے، فرمایا : (وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ) [ البقرۃ : 102 ] ”اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے۔“ ظاہر ہے وہاں تلاوت سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو سناتے تھے۔ ویسے یاد کرنے کرانے کے لیے حدیث رسول پڑھنا بھی کار ثواب ہے اور حدیث حفظ کرنے والے کو اسے بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ ہاں، پڑھنے پڑھنے میں فرق ضرور ہے۔ 3 یہ آیت ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے کی بھی واضح دلیل ہے، کیونکہ ”فی بیوتکن“ میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں کو ان کے گھر کہا گیا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرً : ”لَطِيْفًا“ کے لفظ میں بیحد مہربانی کے ساتھ باریک بینی اور خفیہ طریقے سے کسی کام کے ادا کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں یہ دونوں صفات ذکر کرنے میں کئی باتوں کی طرف اشارہ ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا تمام عورتوں میں سے ازواج مطہرات کو نبی ﷺ کی صحبت کے لیے چننا، ان کی طہارت کا اہتمام کرنا، انھیں علم و عمل کا کمال حاصل کرنے کا موقع عطا کرنا، اس کے مخفی سے مخفی امور سے واقف ہونے، اس کے نہایت مہربان ہونے اور ہر چیز سے پوری طرح باخبر ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے اس نے انھیں اس کا اہل سمجھ کر اس مرتبے کے لیے منتخب فرمایا۔ ایک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ چونکہ یہ آیات ازواج مطہرات کے خرچے میں اضافے کے مطالبے پر نازل ہوئیں، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ حالات بظاہر تمہارے لیے مشکل ہیں، لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کو ترجیح دو گی تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ دنیا کی خوش حالی بھی کچھ دور نہیں، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے ایسے باریک طریقوں سے وجود میں لے آتا ہے جو کسی کی سوچ میں بھی نہیں آسکتے۔ وہ لطیف بھی ہے اور پوری طرح باخبر بھی، اس نے ان لوگوں کو جو دنیا کی زیب و زینت سے بےنیاز تھے، زمین کے مشرق و مغرب کا مالک بنادیا اور جو دنیا کے طلب گار تھے اور جن کی ساری تگ و دو ہی دنیا کے لیے تھی انھیں غلام بنادیا۔
Top