Al-Quran-al-Kareem - Az-Zumar : 6
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ١ؕ یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
خَلَقَكُمْ : اس نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ : نفس واحد ثُمَّ جَعَلَ : پھر اس نے بنایا مِنْهَا : اس سے زَوْجَهَا : اس کا جوڑا وَاَنْزَلَ : اور اس نے بھیجے لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ الْاَنْعَامِ : چوپایوں سے ثَمٰنِيَةَ : آٹھ اَزْوَاجٍ ۭ : جوڑے يَخْلُقُكُمْ : وہ پیدا کرتا ہے تمہیں فِيْ بُطُوْنِ : پیٹ (جمع) میں اُمَّهٰتِكُمْ : تمہاری مائیں خَلْقًا : ایک کیفیت مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد خَلْقٍ : دوسری کیفیت فِيْ ظُلُمٰتٍ : تاریکیوں میں ثَلٰثٍ ۭ : تین ذٰلِكُمُ اللّٰهُ : یہ تمہارا اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا پروردگار لَهُ : اس کے لیے الْمُلْكُ ۭ : بادشاہت لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا فَاَنّٰى : تو کہاں تُصْرَفُوْنَ : تم پھرے جاتے ہو
اس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر اس سے اس کا جو ڑا بنایا اور تمہارے لیے چوپاؤں میں سے آٹھ قسمیں (نر و مادہ) اتاریں۔ وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں، تین اندھیروں میں، ایک پیدائش کے بعد دوسری پیدائش میں پیدا کرتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر تم کس طرح پھیرے جاتے ہو۔
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نساء کی پہلی آیت۔ وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ ۭ : یہ بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت و عظمت کی دلیل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (143، 144) جانوروں کی آٹھ قسمیں پیدا کرنے کے لیے ”انزل“ (اتارا) کا لفظ یہ توجہ دلانے کے لیے ہے کہ تمہیں ملنے والی نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ) [ الذاریات : 22 ] ”اور آسمان ہی میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو۔“ بیشمار جانوروں میں سے خاص طور پر ان جانوروں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ زیادہ تر یہی جانور لوگوں کے کھانے پینے، پہننے اور دوسری ضروریات میں استعمال ہوتے ہیں۔ لوہا بھی چونکہ انسانی ضروریات میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اس کے لیے بھی یہی الفاظ استعمال فرمائے : (ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ) [ الحدید : 25 ] ”اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت لڑائی (کا سامان) ہے اور لوگوں کے لیے بہت سے فائدے ہیں۔“ يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ : ایک پیدائش کے بعد دوسری پیدائش سے مراد نطفے سے لے کر مکمل انسان تک کے سارے مراحل ہیں۔ دیکھیے سورة مومنون (12 تا 14)۔ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ : اس سے مراد پیٹ کی تاریکی، رحم کی تاریکی اور اس جھلی کی تاریکی ہے جو بچے کے اوپر لپٹی ہوتی ہے۔ ماؤں کے پیٹوں میں اتنی تاریکیوں کے اندر تمہاری مختلف مرحلوں میں پیدائش، وہیں تمہارے لیے ہر ضرورت مہیا کرنا اور ہر صدمے اور چوٹ سے محفوظ رکھنا، پھر خیریت سے اس دنیا میں لے آنا اس ذات واحد ہی کی کاری گری ہے۔ مزید دیکھیے سورة مرسلات (20 تا 23) اور سورة عبس (17 تا 20)۔ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ۔۔ : یعنی جب تمہارا رب اللہ تعالیٰ ہے اور سب بادشاہی اسی کی ہے تو لازماً تمہارا الٰہ (معبود) بھی وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی اور کس طرح الٰہ ہوسکتا ہے، جو نہ تمہارا خالق، نہ مالک، نہ پروردگار، نہ بادشاہ اور نہ ہی اس کا ان کاموں میں کوئی حصہ، پھر تم ایسے معبود بنا کر کس طرح اور کدھر پھیرے جاتے ہو ؟ معلوم ہوا انسان کی اصل فطرت توحید کا عقیدہ ہے۔ اس سے ہٹانے والا شیطان ہوتا ہے یا دوسرے لوگ جو اسے غلط راستے کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ اس میں آدمی کی غیرت کو ابھارا ہے کہ اپنی عقل اور اپنی مرضی استعمال کرنے کے بجائے اندھا دھند دوسروں کے کہنے پر غلط راستے پر جا رہے ہو، کچھ تو سوچو کہ تمہیں سیدھے راستے سے کس طرح ہٹایا اور کدھر کو لے جایا جا رہا ہے ؟
Top