Urwatul-Wusqaa - Az-Zumar : 6
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ١ؕ یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ فَاَنّٰى تُصْرَفُوْنَ
خَلَقَكُمْ : اس نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ : نفس واحد ثُمَّ جَعَلَ : پھر اس نے بنایا مِنْهَا : اس سے زَوْجَهَا : اس کا جوڑا وَاَنْزَلَ : اور اس نے بھیجے لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنَ الْاَنْعَامِ : چوپایوں سے ثَمٰنِيَةَ : آٹھ اَزْوَاجٍ ۭ : جوڑے يَخْلُقُكُمْ : وہ پیدا کرتا ہے تمہیں فِيْ بُطُوْنِ : پیٹ (جمع) میں اُمَّهٰتِكُمْ : تمہاری مائیں خَلْقًا : ایک کیفیت مِّنْۢ بَعْدِ : کے بعد خَلْقٍ : دوسری کیفیت فِيْ ظُلُمٰتٍ : تاریکیوں میں ثَلٰثٍ ۭ : تین ذٰلِكُمُ اللّٰهُ : یہ تمہارا اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا پروردگار لَهُ : اس کے لیے الْمُلْكُ ۭ : بادشاہت لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا فَاَنّٰى : تو کہاں تُصْرَفُوْنَ : تم پھرے جاتے ہو
اس نے تم سب کو ایک نفس (جنس) سے پیدا کیا پھر اس (جنس) سے اس کا جوڑا بنایا اور تمہارے (فائدے کے لیے) جانوروں میں سے آٹھ نر و مادہ اتارے ، اس نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تاریکیوں میں (رکھ کر) بنایا ، یہی اللہ تمہارا رب ہے ، اس کی حکومت ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو ؟
اللہ نے تم کو ایک جنس سے پیدا کیا اور اسی جنس سے اس کا جوڑا بنایا 6۔ ” اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا پھر اس سے اس کو جوڑا بنایا۔ “ نفس سے مراد کیا ہے ؟ کہا گیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) پھر ظاہر مطلب تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا پھر اس سے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا اور اس کے بعد اسی سے اس کا جوڑا پیدا کردیا حالانکہ اس بات کو کوئی بھی تسلما نہیں کرتا بلکہ سب کے سب یہی مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور پھر آدم (علیہ السلام) ہی سے اس کا جوڑا یعنی اس کی بیوی پیدا کردی اور پھر ان دونوں میاں بیوی سے ان کی اولاد پیدا کردی اور ہم نے اس کی وضاھت سورة النساء کی آیت اول میں پھر سورة الاعراف کی آیت 11 میں کردی ہے کہ نفس سے مراد جنس ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم سب کو ایک ہی جنس سے پیدا کیا اور تم میں سے ہر ایک کے جوڑا کو بھی تمہاری جنس ہی سے پیدا کیا گیا جیسا کہ اس کی وضاحت عروۃ الوثقی جلد ہذا میں سورة الروم کی آیت 21 میں ہم کر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی نے انسانوں کے فائدہ کے لیے الانعام میں سے آٹھ طرح کے جانور پیدا کردیئے جو نر و مادہ کی صورت میں ہیں اور یہ بھی انسانوں کی طرح چار الگ الگ اجناس سے تعلق رکھتے ہیں مثلا اونٹ میں سے دو نر اور مادہ ، گائے میں سے دو نر اور مادہ ، بھیڑ میں سے دو نر اور مادہ ، بکری میں سے دو نر اور مادہ گویا یہ کل چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ ہوگئے جن کا تعلق چار الگ الگ اجناس سے ہوا یہ انسان کے فائدہ کی چیزیں ہیں ان کا ذکر کرنے کے بعد پھر انسان کی پیدائش کا ذکر شروع کردیا فرمایا اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے قانون تخلیق کے تحت تمہاری مائوں کے پیٹوں تدریجا ایک حالت سے دوسری حالت میں داخل کرتے ہوء؁ تین اندھیروں کے اندر پیدا کردیا تین اندھیروں سے مراد نہایت گہرا اندھیرا ہے جو مادر شکم کے اندر رحم مادر اور پھر رحم مادر میں بچہ کے باہر کا مکمل غلاف جس کو جھلی کہا جاسکتا ہے گویا اتنے گھپ اندھیرے میں بچہ تیار ہو رہا ہے اس قطرہ آب سے جس کے اندر کروڑوں جرثومے پائے جاتے ہیں جس جرثومہ کو اللہ تعالیٰ پروان چڑھانا چاہتا ہے اس کو ٹک جانے اور ٹھہر جانے سے ہم تعبیر کرتے ہیں اس جرثومہ کو مختلف مرحلوں سے گزار کر کامل انسان کی صورت میں دونوں اصناف میں سے ایک صنف کو کبھی دونوں کو اور کبھی ایک ہی صنف کے دو افراد کو وہ پیدا کردیتا ہے۔ غور کرو کہ اس جرثومہ میں وہ کامل اور مکمل انسان کس طرح پوشیدہ تھا جس کے ہر ہر عضو میں جو جو باریکیاں ، لطافتیں اور پیچیدگیاں ہیں سب کی سب دن کی روشنی میں تمہاری آنکھوں کے سامنے انجام پذیر نہیں ہوتیں بلکہ تہ درتہ اندھیروں میں یہ تکوینی عمل جاری رہتا ہے اور نہایت آرام و احتیاط کے ساتھ بچہ تیار ہوتا رہتا ہے۔ ” یہی اللہ تمہارا رب ہے ، اسی کی حکومت ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے “ یہ تمہارا اللہ ہے جو یہ سارے کام کر رہا ہے جن کاموں کا گزش تہ عبارت میں ذکر کیا گیا اور یہی تمہارا رب ، الٰہ اور معبود ہے اور یہی حقیقی کار ساز اور حاجت روا ہے اور پھر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسی کی حکومت ہے جس کو کبھی زوال نہیں تمہارے بناوٹی حکمران ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور وہ اصلی اور حقیقی بادشاہ ہے جس کی بادشاہی کبھی نہیں بدلتی اور نہ ہی کبھی بدلے گی وہی حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی نہیں جو عبادت کے لائق ہو پھر تم کدھر دھکے کھا رہے ہو اس سے منہ موڑ کر تم کدھر جا رہے ہو اگر تم انکار وکفر کی روش نہیں چھوڑو گے تو تم خود عبرتناک انجام سے دوچار ہو جائو گے اللہ تعالیٰ کا تو تم کچھ نہیں بگاڑ سکو گے کیونکہ تم ہر بات میں اس کے محتاج ہو اور اس کو تمہاری کوئی ضرورت یا احتیاج نہیں اور یہ بات بھی محض انسانوں کو باور کرانے کے لیے کہی گئی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے بہت ہی پیار ہے یہی وجہ ہے کہ ایک گناہوں میں لت پت انسان بھی جب اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فریاد کو سنتا ہے۔ اس مضمون کی میزید وضاحت سورة النحل کی آیت 62 میں ملے گی اور سورة النحل عروۃ الوثقی جلد پنجم کی دوسری سورت ہے۔
Top