Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 4
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْۤا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِهِمْ١ؕ وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
هُوَ الَّذِيْٓ : وہی وہ جس نے اَنْزَلَ : اتاری السَّكِيْنَةَ : سکینہ (تسلی) فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں لِيَزْدَادُوْٓا : تاکہ وہ بڑھائے اِيْمَانًا : ایمان مَّعَ : ساتھ اِيْمَانِهِمْ ۭ : ان کے ایمان کے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کیلئے جُنُوْدُ : لشکر (جمع) السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ عَلِيْمًا : جاننے و الا حَكِيْمًا : حکمت والا
وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی، تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ایمان میں زیادہ ہوجائیں اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
(1) ھو الذی انزل الکسینۃ فی قلوب المومنین :”الکسینۃ“ سے مراد وہ سکون و اطمینان اور ثبات قلب ہے جس کا اتارنا اللہ تعالیٰ نے مدینہ سے نکلنے سے لے کر اس فتح مبین کے حصول تک مومنوں کے دلوں پر مسلسل جاری رکھا اور جو اس فتح کا اہم سبب بنا، ورنہ اگر مسلمان مدینہ سے عمرہ کے لئے نکلتے وقت منافقین کی طرح سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے، یا راستے میں جب اطلاع ملی کہ قریش لڑنے مرنے پر تلے ہوئے ہیں تو ہمت ہار جاتے، یا حدیبیہ میں پہنچنے پر جس طرح کفار نے مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا اور چھاپے اور شب خون مار مار کر انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی ، پھر جب عثمان ؓ کی شہادت کی خبر پھیلی، ان میں سے کسی موقع پر اگر مسلمان اپنے آپ پر قابو نہ رکھتے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر قائم نہ رہتے تو یہ فتح مبین کبھی حال نہ ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ سکینت ہی تھی جس نے ہر موقع پر انہیں اطاعت پر ثابت قدم رکھا۔ پھر جب صلح کی وہ شرئاط ان کے سامنے آئیں جو مسلمانوں کو سخت ناپسند اور ان کے خیال میں ان اطاعت پر ثابت قدم رکھا۔ پھر جب صلح کی وہ شرائط ان کے سامنے آئیں جو مسلمانوں کو سخت ناپسند اور ان کے خیال میں ان کی ذلت کا باعث تھیں، خصوصاً ابوجندل ؓ مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آکھڑے ہوئے، اس موقع پر اس سکینت ہی کی برکت تھی کہ سب نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلے پر سر تسلیم خم کردیا۔ (2) لیزدادوآ ایمانا مع ایمانھم : یعنی ایمان انہیں پہلے بھی حاصل تھا مگر ان تمام آزماشوں میں ثابت قدم رہنے کی وجہ سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جب اس ثابت قدمی کے خوش گوار نتائج سامنے آئے تو ان کا ایمان مزید بڑھ گیا۔ یہ آیت بھی ان بہت سی آیات و احادیث میں سے ایک ہے جو ایمان میں زیادتی اور کمی کی دلیل ہیں۔ امام بخاری نے متعدد آیات و احادیث کے ساتھ اس مسئلے کو مدلل ذکر فرمایا ہے۔ روح المعانی میں ہے :”بخاری نے فرمایا، میں بہت سے شہروں میں ایک ہزار سے زائد علماء سے ملا، میں نے ان میں سے ایک شخص بھی نہیں دیکھا جو اس بات سے اختلاف کرتا ہوا کہ ایمان قول اور عمل ہے اور اس میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے اور انہوں نے اس کی عقلی اور نقلی دلیلیں بیان کی ہیں۔ عقلی دلیلیں تو یہ ہے کہ ایمان کی حقیقت میں تفاوت نہ ہو تو امت کے عام آدمیوں کا ایمان، جو فسق و فجور میں منہمک رہتے ہیں، انبیاء کے ایمان کے برابر ہوگا اور یہ لازم باطل ہے ، سو ملزوم بھی ایسا ہی ہے اور نقلی دلیل یہ کہ اس مفہوم کی آیات و احادیث بہت زیادہ ہیں جن میں سے ایک یہ آیت ہے جو زیر تفسیر ہے۔“ (ملحضاً) یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان میں زیادتی کا مطلب اعمال کے لحاظ سے زیادتی ہی نہیں بلکہ دل کی تصدیق اور اس کے یقین میں بھی زیادتی اور کمی ہوتی ہے۔ کبھی یقین کا یہ حال ہوتا ہے کہ آدمی اپنی جان، مال اور ہر چیز اللہ کی راہ میں لٹانے پر تیار ہوجاتا ہے اور بھی اس یقین میں ایسی کمی ہوتی ہے کہ اسلام قبول کرتے وقت ایمان کا جو سرمایہ اسے حاصل ہوا تھا وہ بھی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ تعجب اور افسوس ہے ان بڑے بڑے شیوخ الحدیث پر جو اتنی صریح آیات و احادیث کے باوجود یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ایمان میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے، ان کے علمک ا کمال یہی ہے کہ وہ تاویل کے ذریعے سے ثابت کردیتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا ایمان برابر ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے دھڑے کے کسی بزرگ نے کہہ دیا ہے کہ ایمان میں نہ زیاتدی ہوتی ہے نہ کمی۔ (3) وللہ جنود السموت ولارض : یعنی آپ کو ظاہر اسباب کی کمی کے باوجود یہ فتح مبین آپ کی جدوجہد یا ذاتی کمال کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی بدولت حاصل ہوئی، کیونکہ وہی آسمانوں کے اور زمین کے بیشمار لشکروں کا مالک ہے۔ جس کی چاہتا ہے جس لشکر کے ساتھ چاہتا ہے مدد کردیتا ہے۔ آسمانوں کے لشکروں کی مثال بدر میں نازل ہونے والے فرشتے، احزاب میں آنے والی آندھی اور بدر میں اترنے والی بارش ہیں اور زمین کے لشکروں کی مثال فتح مکہ کے موقع پر آنے والے دس ہزار مجاہدین کا عظیم الشان لشکر ہے۔”للہ“ کو پہلے لانے سے حصر پیدا ہوا، جس کا مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ مانتا ہی نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں اس کے علاوہ بھی کسی کے پاس کوئی لشکر ہے، کیونکہ اس کیس امنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ (4) وکان اللہ علیماً حکیماً : یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے لشکروں کا اکیلا مالک ہے اور لشکر بھی ایسے کہ ان میں سے کسی لشکر کا ایک فرد اگر اللہ کا حکم ہو تو تمام کافر کو نیست و نابود کر دے، مگر اس نے یہ فتح مبین اور نصر عزیز صلح کی صورت میں عطا فرمائی کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ اس کے علم میں یہ بات تھی اور اس کی حکمت کا تقاضا تھا کہ اب کفار کو تلوار کی مار کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے اور ان کی دعوت سننے کا موقع دیا جائے، تاکہ کافر مسلمان ہوجائیں اور دشمن دوست بن ذجائیں۔ واضح رہے، یہاں ”علیماً حکیماً“ فرمایا ہے : جبکہ آگے جہاں کفار و منافقین کیلئے عذاب اور لعنت کا ذکر فرمایا ہے وہاں ”عزیز اً حکیماً“ فرمایا ہے، کیونکہ عذاب کے ذکر کے مناسب صفت علم کے بجائے صفت عزیز ہے۔
Top