Al-Quran-al-Kareem - Adh-Dhaariyat : 58
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ هُوَ الرَّزَّاقُ : وہی رزاق ہے ذُو الْقُوَّةِ : قوت والا ہے الْمَتِيْنُ : زبردست ہے
بیشک اللہ ہی بےحد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہے۔
(1) ان اللہ ھو الرزاق ذوالقواۃ المتین :”ھو“ ضمیر فصل لانے سے اور ”الرزاق“ خبر پر ”الف لام“ لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا کہ رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی نہیں۔ ”الرزاق“ مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی میں نہ جن و انس سے کسی طرح کا رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں، کیونکہ رزق دینے والا تو صرف میں ہوں، میرے سوا کوئی رزق دینے والا ہے ہی نہیں اور میں کھانیپ ینے اور ہر ضرورت سے غنی ہوں، تو میں جن و انس سے رزق کا یا کھلانے کا ارادہ کیوں کروں گا ؟ دوسریج گہ فرمایا :(قل اغیر اللہ اتخذ و لیافاطر السموت والارض وھو یطعم ولایطعم) (الانعام : 13) ”کہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی مالک بناؤں جو آسمانوں اور زمین پیدا کرنے والا ہے، حالانکہ وہ کھلاتا ہے اور اسے نہیں کھلایا جاتا۔“ (2) سیاق کا تقاضا یہ تھا کہ کہا جاتا :”انی انا الرزاق ذوالقوۃ المتین“ کہ (نہ میں ان سے کسی رزق کا ارادہ کرتا ہوں اور نہ یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں) کیونکہ میں ہی تو بےحد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہوں۔ رسول اللہ ﷺ سے اس طرح پڑھنا بھی ثابت ہے، چناچہ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے اس طرح پڑھایا :(انی انا الرزاق ذوالقوۃ المتین) (ابو داؤد، الحروف و القراء ات ، باب : 3993۔ ترمذی : 2930، وصححہ فلالبانی) مصحف امام میں ”ان اللہ ھو الرزاق“ ہے اور متواتر قرأت یہی ہے۔ ”انی انا الرزاق“ کے بجائے ”ان اللہ ھو الرزاق، کہنے میں لفظ ”اللہ“ میں آنے والی تمام صفات، مثلاً اس کے جلال، اس کی کبریائی اور عظمت کا اظہار مقصود ہے۔ (3) ذوالقوۃ المتین :”ذوالقوۃ“ ”ذو“ کا لفظ کسی اہم چیز کا مالک ہونے کے لئے آتا ہے، مثلاً ”’ و مال“ اور ”ذو شرف“ یعنی ساری قوت کا مالک ہے۔“ ”المتین“ نہایت مضبوط۔ جسے کوئی نہ اس کے ارادے سے ہٹا سکتا ہے اور نہ اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
Top