Al-Quran-al-Kareem - Al-Haaqqa : 20
اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْۚ
اِنِّىْ : بیشک میں ظَنَنْتُ : میں یقین رکھتا تھا اَنِّىْ : کہ بیشک میں مُلٰقٍ : ملاقات کرنے والا ہوں حِسَابِيَهْ : اپنے حساب سے
یقینا میں نے سمجھ لیا تھا کہ بیشک میں اپنے حساب سے ملنے والا ہوں۔
انی ظننت انی ملق حسابیہ :”انی ظننت“ یقینا میں نے سمجھ لیا تھا۔”ظن“ کا لفظ وہم، گمان اور قین تینوں چیزوں کے لئے آتا ہے، کیونکہ یہ اصل میں علامات اور نشانیوں کے ذریعے سے حاصل ہونے والی چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نشانیاں کمزور ہوں تو وہم یا گمان تک معاملہ رہتا ہے، اگر مضبوط ہوں تو غالب گمان اور علم و یقین کا معنی دیتا ہے۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ ”ان“ بھی ہو۔ (مفردات) یہاں ”ظننت“ کا لفظ غالب گمان کے معنی میں ہے، جو دن بدن دلائل کے ساتھ یقین میں بدلتا جاتا ہے، اسی غالب گمان ہی کی وجہ سے انسان قیامت کے دن کے حساب سے ڈر کر اللہ کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ اگر مکمل یقین کے بغیر وہ اللہ کی نافرمانی چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو مکمل یقین تو قیامت سامنے آنے ہی پر ہوگا اور اس وقت اس یقین کا کوئی فائدہ نہیں۔ صاحب احسن التفاسیر فرماتے ہیں :”قرآن شریف میں یقین کی جگہ ظن کا لفظ عقبی کیب اتوں میں اس لئے بولا گیا ہے کہا ن باتوں کا پورا یقین مرنے کے بعد ہوگا۔“ خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ وہ اپنی خوش قسمتی کی وجہ یہ بتائے گا کہ اس نے دنیا میں یہ سمجھ کر زندگی بسر کی کہ آخر ایک دن اس کا حساب ہونا ہے۔
Top