Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
در گزر اختیار کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کر۔
خُذِ الْعَفْوَ : یعنی توحید کی دعوت کے جواب میں آپ کو مشرکوں اور جاہلوں کی طرف سے بہت تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ دیکھیے آل عمران (186) اور بقرہ (109) آپ اس کے مقابلے میں درگزر سے کام لیں۔ یہاں آپ ﷺ کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آپ کے واسطے سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اسلام کی دعوت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے، جیسے فرمایا : (وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ) [ النحل : 125 ] ”اور ان سے اس طریقے سے بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔“ اور فرمایا : (وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠) [ آل عمران : 159 ] ”اور اگر تو بدخلق سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے۔“ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ : ”عَرَفَ یَعْرِفُ“ سے مصدر بمعنی معروف ہے، وہ بات جس کا اچھا ہونا فطرت انسانی پہچانتی ہے اور شریعت اس کی تائید کرتی ہے۔ یعنی درگزر کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انھیں نیکی کا حکم دینا چھوڑ دیں، بلکہ عفو و درگزر کا تعلق حسن اخلاق سے ہے۔ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ : اگر وہ ضد پر اڑ کر مخالفانہ رویہ اختیار کریں اور بےفائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے آپ خاموشی اختیار کریں، خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنا دیں۔ امید ہے کہ اس سے ان کے رویے میں تبدیلی پیدا ہوگی اور ان کی جارحیت کا وار خالی جائے گا۔ دیکھیے سورة قصص (55) اور فرقان (63) بعض علماء نے فرمایا کہ عفو و درگزر کا یہ حکم مکہ میں تھا، مدینہ میں جا کر قتال اور اقامت حدود کا حکم نازل ہوا تو یہ منسوخ ہوگیا۔ دیکھیے سورة بقرہ (109) مگر اس کے بعد بھی جو لوگ مسلمانوں میں سے جہالت اختیار کریں، جیسے منافق یا وہ کفار جن سے جنگ نہیں ہو رہی، ان سے درگزر کرنے، نیکی کا حکم دینے اور ان کی جہالت سے اعراض کا حکم اب بھی ہے، بلکہ دعوت کے وقت ان چیزوں کا خیال ہمیشہ رکھنا پڑے گا۔ ہاں حدود کے مجرموں یا جنگ پر آمادہ لوگوں سے ان کے لائق معاملہ کیا جائے گا اور اس کے واضح احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔
Top