Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 46
وَ بَیْنَهُمَا حِجَابٌ١ۚ وَ عَلَى الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢا بِسِیْمٰىهُمْ١ۚ وَ نَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ١۫ لَمْ یَدْخُلُوْهَا وَ هُمْ یَطْمَعُوْنَ
وَبَيْنَهُمَا : اور ان کے درمیان حِجَابٌ : ایک حجاب وَ : اور عَلَي : پر الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالٌ : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَ : پہچان لیں گے كُلًّا : ہر ایک بِسِیْمٰفُمْ : ان کی پیشانی سے وَنَادَوْا : اور پکاریں گے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : جنت والے اَنْ : کہ سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكُمْ : تم پر لَمْ يَدْخُلُوْهَا : وہ اس میں داخل نہیں ہوئے وَهُمْ : اور وہ يَطْمَعُوْنَ : امیدوار ہیں
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور (اس کی) بلندیوں پر کچھ مرد ہوں گے، جو سب کو ان کی نشانی سے پہچانیں گے اور وہ جنت والوں کو آواز دیں گے کہ تم پر سلام ہے۔ وہ اس میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور وہ طمع رکھتے ہوں گے۔
وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ: جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہوگی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ) [ الحدید : 13 ] یعنی جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک دیوار بنادی جائے گی، جس کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب۔ شاہ ولی اللہ ؓ فرماتے ہیں : ”وآں مسمی ب اعراف است۔“ یعنی اس دیوار کو ”اعراف“ کہا جاتا ہے۔ (فتح الرحمن) وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ: ”الْاَعْرَافِ“ یہ ”عُرْفٌ“ کی جمع ہے اور لغت میں ”عَرَفَ یَعْرِفُ مَعْرِفَۃً“ پہچاننے کو اللہ ”عُرْفٌ“ بلند جگہ کو کہتے ہیں، کیونکہ بلند چیز ممتاز ہونے کی وجہ سے آسانی سے پہچانی جاتی ہے اسی سے مرغ کی کلغی اور گھوڑے کی گردن کے بلند حصے کے بالوں کو ”عُرْفٌ“ کہتے ہیں، کیونکہ بلندی کی وجہ سے وہ پہچان میں ممتاز ہوتے ہیں، لہٰذا ”الاعراف“ سے مراد جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان دیوار کی بلندیاں ہیں، جہاں ٹھہرنے والوں کو ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی لوگ نظر آئیں گے، اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں۔ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ۚ: ”سِیْمَا“ کا معنی نشانی ہے، مثلاً جنتیوں کے چہرے سفید اور نورانی ہوں گے اور جہنمیوں کے کالے سیاہ، یا امت محمد ﷺ کے وضو کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔ ”الاعراف“ میں کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ قرطبی نے دس قول ذکر کیے ہیں، ان میں سب سے مشہور قول جسے جمہور مفسرین نے کثرت روایات کی بنا پر ترجیح دی ہے، یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، اس لیے وہ بیچ میں دیوار پر ہوں گے۔ اس کا ایک قرینہ یہ جملہ بھی ہے : (ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ) ”وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کی طمع رکھتے ہوں گے۔“ وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ : یعنی جنت میں جانے کی امید رکھتے ہوں گے، اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر امید رکھتے ہوں گے کہ انھیں آئندہ جنت نصیب ہوگی۔ دوسرے یہ کہ اعراف والے ان لوگوں کو پکاریں گے جن کا جنتی ہونا ان کی علامات دیکھ کر معلوم ہوجائے گا، حالانکہ وہ ابھی حساب کتاب میں مشغول ہونے کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ (ابن کثیر) ابن کثیر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اصحاب الاعراف کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”یہ وہ لوگ ہیں جو نافرمانی کرتے ہوئے ماں باپ کی اجازت کے بغیر چلے گئے اور اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، اب انھیں جنت میں داخلے سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور آگ میں داخل ہونے سے انھیں اللہ کی راہ میں قتل ہونے نے روک دیا۔“ حافظ ابن کثیر ؓ نے ان روایات کے غیر معتبر ہونے کی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا کہ مرفوع روایات کی صحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور ابن کثیر کی تخریج ”ہدایۃ المستنیر“ میں ان تمام روایات کا غیر معتبر ہونا تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
Top