Urwatul-Wusqaa - Hud : 60
وَ اُتْبِعُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ عَادًا كَفَرُوْا رَبَّهُمْ١ؕ اَلَا بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ هُوْدٍ۠   ۧ
وَاُتْبِعُوْا : اور ان کے پیچھے لگا دی گئی فِيْ : میں هٰذِهِ الدُّنْيَا : اس دنیا لَعْنَةً : لعنت وَّيَوْمَ : اور روز الْقِيٰمَةِ : قیامت اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک عَادًا : عاد كَفَرُوْا : وہ منکر ہوئے رَبَّهُمْ : اپنا رب اَلَا : یاد رکھو بُعْدًا : پھٹکار لِّعَادٍ : عاد کے لیے قَوْمِ هُوْدٍ : ہود کی قوم
اور دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت پڑی اور قیامت کے دن بھی تو سن رکھو کہ قوم عاد نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور سن رکھو کہ عاد کے لیے محرومی کا اعلان ہوا جو ہود کی قوم تھی
دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت پڑی اور قیامت کو بھی وہ یقینا رسوا ہوں گے 80 ؎ ہود (علیہ السلام) کی قوم کا انجام بھی اس طرح ہلاکت پر آ کر منتہی ہوا جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کا اختتام ہوا تھا اور دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگائی گئی یعنی وہ رحمت سے دور ہی کردیئے گئے اور قیامت کے روز بھی وہ لوگ رحمت سے دور ہی رکھے جائیں گے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ عاد قوم پر ہوا کا طوفان مسلط ہوا تھا مگر سورة مومنوں میں یہ مذکور ہے کہ ان کو ایک سخت آواز کے ذریعہ ہلاک کیا گیا اس لئے ممکن ہے کہ قوم ہود پر دونوں قسم کا عذاب نازل کیا گیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس طوفان باد میں ہی وہ سخت چیخ کا عذاب بھی شامل ہو جیسا کہ اکثر یہ ہوتا ہے اور عام تیز و تند ہوا میں بھی سخت مہیب قسم کی آواز پیدا ہوتی ہے جس سے انسان فی الواقع خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ اس آیت 60 پر ہود (علیہ السلام) کا واقعہ تمام ہوا۔ اب مختصر سرگزشت ایک بار پھر نظر میں لائیں پھر انشاء اللہ العزیز ثمود قوم کا ذکر آئے گا جو صالح (علیہ السلام) کی قوم بھی کہلاتی تھی۔ سیدنا ہود (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بعد عاد قوم یا قوم ہود (علیہ السلام) وہ پہلی قوم ہے جس نے اس سرزمین میں عمارات کی صنعت میں بہت ترقی کی۔ ہود (علیہ السلام) کا ذکر قرآن کریم کی صرف تین سورتوں الاعراف 7 : 65 ، ہود 11 : 50 سے 89 تک اور سورة الشعراء 26 : 124 میں آیا ہے لیکن عاد قوم کے نام سے قرآن کریم کی 9 سورتوں میں ذکر کیا گیا ہے یعنی الاعراف ، ہود ، مومنون ، الشعراء ، فصلت ، الاحقاف ، الذاریات ، القمر اور سورة الحاقہ میں لیکن قرآن کریم کے سوا کوئی تاریخ کی کتاب یا تورات عاد کے متعلق کچھ روشنی نہیں ڈالتی اس لئے اس قوم کے نقشہ کا سب سے زیادہ انحصار قرآن کریم ہی کے بیان اور آثار قدیمہ کے انکشافات پر ہے۔ عاد عرب کے قدیم قبیلہ یا امم سامیہ کے صاحب قوت و اقتدار افراد جماعت کا نام ہے۔ تاریخ قدیم کے بعض یورپی مصنفین عاد کو ایک فرضی کہانی یقین کرتے ہیں مگر ان کا یہ یقین بالکل غلط اور سراسر وہم ہے اس لئے کہ جدید تحقیقات کا یہ مسلمہ فیصلہ ہے کہ عرب کے قدیم باشندے کثرت افراد و قبائل کے اعتبار سے ایک باعظمت قوم تھے جو عرب سے نکل کر شام ، مصر اور بابل کی طرف بڑھے اور وہاں زبردست حکومتوں کی بنیادیں قائم کیں اب فرق صرف اسی قدر ہے کہ عرب ان باشندوں کو ” امم بائدہ “ یا عرب عادیہ اور ان کی مختلف جماعتوں کے افراد کو عاد ، ثمود ، طسم اور جدیس کہتے ہیں اور مستشرقین یورپ ” امم سامیہ “ نام رکھتے ہیں اور اس طرح اصطلاحات و تعبیرات کے فرق سے حقیقت و واقعہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوجاتی اس لئے قرآن کریم نے ان کو ” عاد اولیٰ “ کہا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ عرب کی قدیم قوم ” بنو سام “ اور ” عاد اولی “ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ عاد کا زمانہ تقریباً دو ہزار قبل مسیح (علیہ السلام) مانا جاتا ہے اور قرآن کریم نے عاد کو ” من بعد قوم نوح “ کہہ کر قوم نوح کے خلفاء میں ان کو شمار کیا ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ شام کی دوبارہ آبادی کے بعد امم سامیہ کی ترقی عاد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ عاد کا مرکزی مقام ارض احقاف ہے جو حضرموت کے شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے شرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخالی مگر آج کل ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہاں ریت کے ٹیلے ہی ٹیلے نظر آتے ہیں اور بعض لوگوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین اور حضر موت اور یمن میں خلیج فارس کے سواحل سے حدود عراق تک وسیع تھی اور یمن ان کا دارالحکومت تھا۔ عاد قوم بھی نوح (علیہ السلام) کی ہلاک ہونے والی قوم کی طرح پکی مشرک تھی اپنے بزرگوں کے صنم تراشتے اور ان کی پرستش کرتے تھے اور مورخین کے بیان کے مطابق ان کے بڑے بت بھی وہی تھے جو قوم نوح کی ہلاک ہونے والی قوم کے تھے یعنی ” ود “ ، ” سواع “ ، ” یغوث “ ، ” یعوق “ اور ” نسر “ بلکہ بعض نئے نام بھی ان میں داخل تھے جیسے عبد اللہ بن عباس ؓ کے ایک اثر میں منقول ہے کہ ان کے ایک بڑے صنم کا نام ” صمود “ اور دوسرے کا نام ” ہتار “ تھا۔ عاد اپنی مملکت کے سطوت و جبروت اور جسمانی قوت کے غرور میں اتنے بڑھے کہ انہوں نے اللہ وحدہ لا شریک لہ کو بالکل ہی بھلا دیا اور اپنے فہمیدہ بزرگوں کے تراشیدہ بتوں کو اپنا معبود مان کر ہر قسم کے شیطانی اعمال بےخوف و خطر کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک پغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ ہود (علیہ السلام) کی سب سے زیادہ معزز شاخ ” خلود “ کے ایک فرد تھے۔ سرخ سفید رنگ اور نہایت وجیہ تھے اور ان کی داڑھی بڑی تھی۔ (عین ج 7 کتاب الانبیاء) ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دی اور لوگوں پر ظلم و جور کرنے سے منع فرمایا مگر عاد نے ایک نہ مانی اور ان کو سختی کے ساتھ جھٹلایا اور غرور وتکبر کے ساتھ کہنے لگے ” آج دنیا میں ہم سے زیادہ شوکت و جبروت کا کون مالک ہے ؟ “ تاہم ہود (علیہ السلام) بھی اللہ کے رسول تھے۔ آپ (علیہ السلام) ان کو اسلام کی مسلسل تبلیغ کرتے رہے اور اپنی قوم کو عذاب الٰہی سے ڈراتے رہے اور غرور و سرکشی کے نتائج بتا کر قوم نوح کے واقعات یاد دلاتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ : ” اے قوم ! اپنی جسمانی طاقت اور حکومت کے جبروت پر گھمنڈ نہ کرو بلکہ قوم کا شکر ادا کرو کہ اس نے تم کو یہ دولت بخشی۔ قوم نوح کی تباہی کے بعد تجھ کو زمین کا مالک بنا دیا۔ خوش عیش ، فارغ البالی اور خوش حالی عطا کی لہٰذا اس کی نعمتوں کو نہ بھولو اور اپنے بزرگوں کے ان تراشیدہ اور خود ساختہ بتوں کی پرستش سے باز آ جائو جو نہ تو تم کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ دکھ دے سکتے ہیں۔ موت و زیست ، نفع و ضرر سب ایک ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اے افراد قوم ! مانا کہ تم عرصہ تک سرکشی اور ان کی نافرمانی میں مبتلا رہے ہو مگر آج بھی اگر توبہ کرلو اور باز آ جائو تو اس کی رحمت وسیع ہے اور دروازہ توبہ بند نہیں ہوا اس سے مغفرت چاہو وہ بخش دے گا ، اس کی طرف رجوع ہو جائو وہ معاف کر دے گا ، تقویٰ و طہارت کی زندگی اختیار کرلو وہ تم کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے گا اور بیش از بیش عزت دے گا اور مال و عزت میں سرفرازی بخشے گا۔ ہود (علیہ السلام) اپنی تبلیغ اور پیغام حق کے ساتھ ساتھ بار بار یہ بھی دہراتے کہ میں تم سے کسی اجر و عوض کا خواہاں نہیں ، میرا اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے اور یہ نبی کی زندگی کا طغرائے امتیاز ہے ان کو کوئی یہ تہمت نہیں لگا سکتا کہ وہ مال کی طلب میں ایسا کرتے ہیں یا عزت و جاہ اور ریاست کے طالب ہیں۔ وہ قوم سے نہ ریاست و عزت کے طالب ہوتے ہیں اور نہ مال و منال کے۔ ان کے سامنے تو بس ایک نقطہ ہوتا ہے کہ وہ ادائے فرضی اور اپنے مالک حقیقی کے احکام کی پیغام بری کرتے ہیں۔ عاد قوم میں ایمان دار چند ہی لوگ تھے باقی تمام سرکش اور متمرد انسان کا گروہ تھا ان کو ہود (علیہ السلام) کی یہ ہدایات سخت شاق گزرتی تھیں اور وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے خیالات ، ان کے عقائد ، اعمال فرضی ان کے کسی ارادہ میں بھی کوئی شخص حائل ہو ، ان کیلئے ناصح مشفق ہے ، اس لئے اب انہوں نے یہ روش اختیار کی کہ حضرت ہود کا مذاق اڑانا شروع کردیا ، ان کو بیوقوف گردانا اور ان کی معصومانہ حقایتوں اور صداقتوں کے تمام یقینی دلائل وبراہین کو جھٹلاناشروع کردیا اور ہود (علیہ السلام) سے کہنے لگے۔ ” اے ہود تو ہمارے پاس ایک دلیل بھی نہ لایا اور تیرے کہنے سے ہم اپنے خدائوں کو چھوڑنے والے نہیں اور نہ ہم تجھ پر ایمان لانے والے ہیں۔ “ (ہود 11 : 53) مطلب واضح ہے کہ انہوں نے ہود (علیہ السلام) سے صاف صاف لفظوں میں یہ کہہ دیا کہ ہم تیرے اس ڈھونگ میں آنے والے نہیں کہ تجھ کو اللہ کا رسول مان لیں اور اپنے معبودوں کی عبادت چھوڑ کر یہ یقین کرلیں کہ وہ اللہ کے سامنے ہمارے سفارشی نہیں ہوں گے۔ ہود (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ نہ میں بیوقوف ہوں اور نہ پاگل۔ بلاشبہ میں خدا کا رسول ہوں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے کسی بیوقوف کو منتخب نہیں کیا کرتا کہ اس کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ جائے اور ہدایت کی جگہ گمراہی آجائے۔ وہ اس عظیم الشان خدمت کیلئے اپنے بندوں میں سے ایک شخص کو چنتا ہے جو ہر طرح اس کا اہل ہو اور اس خدمت خلق کو بخوبی انجام دے سکے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” اللہ خوب جاننے والا ہے کہ وہ اپنے منصب رسالت کو کس جگہ رکھے۔ “ لیکن قوم کی سرکشی اور مخالفت بڑھتی ہی رہی اور ان پر آفتاب سے بھی زیادہ روشن دلائل و نصائح کا مطلق اثر نہ ہوا اور وہ ہود (علیہ السلام) کی تکذیب و تذلیل کے اور زیادہ درپے ہوگئے اور (العیاذ باللہ) مجنون اور خبطی کہہ کر اور زیادہ مذاق اڑانے لگے اور کہنے اور لگے اے ہود ! جب سے تم نے ہمارے معبودوں کو برا کہنا اور ہم کو ان کی عبادت سے باز رہنے کیلئے تلقین کرنا شروع کیا ہے ہم دیکھتے ہیں اس وقت سے تیرا حال خراب ہوگیا ہے اور ہمارے ان بزرگوں کی بددعا سے جن کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے ہم نے یہ بت تراشے ہیں تو پاگل اور مجنون ہوگیا ہے تو اب ہم اس کے علاوہ تجھ کو اور کیا سمجھیں ؟ ان کو اپنی اس گستاخانہ جرأت اور ہمت سے یہ خیال ہوچکا تھا کہ اب کوئی شخص ہود (علیہ السلام) کی طرف دھیان نہ دے گا اور ان کی باتوں کو توجہ سے نہ سنے گا لیکن دوسری طرف بھی ہود (علیہ السلام) ہیں انہوں نے ان کی ساری باتوں کو نہایت ضبط و صبر سے سنا اور پھر ان سے اس طرح مخاطب ہوئے کہ : ” میں اللہ کو اور تم سب کو گواہ بنا کر سب سے پہلے یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں اس اعتقاد سے قطعاً بری ہوں کہ ان تمہارے بزرگوں یا ان کے ان بتوں میں یہ قدرت ہے کہ مجھ کو یا کسی کو کسی قسم کی بھی کوئی برائی پہنچا سکتے ہوں اس کے بعد تم کو اور تمہارے ان معبودان باطل کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر ان میں ایسی قدرت ہے تو وہ مجھ کو نقصان پہنچانے میں جلدی سے اقدام کریں میں اپنے اللہ کے فضل و کرم سے صاحب عقل و خرد ہوں اور حکمت و دانائی کا حامل ، میں تو صرف اپنے اس اللہ ہی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی پر وثوق رکھتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں کائنات کے تمام جانداروں کی پیشانیاں ہیں اور جو سب کی حیات و ممات کا مالک ہے ، وہ ضرور میری مدد کرے گا اور ہر نقصان پہنچانے والے کے نقصان سے محفوظ رکھے گا۔ “ انجام کار ہود (علیہ السلام) نے ان کی مسلسل بغاوت و سرکشی کے خلاف یہ اعلان کردیا کہ اگر عاد کا رویہ یہی رہا اور حق سے روگردانی کی روش میں انہوں نے کوئی تبدیلی نہ کی اور میری پند و نصائح کو ہوش گوش سے نہ سنا تو یاد رکھو کہ ان کی ہلاکت یقینی ہے ، اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کو ہلاک کر دے گا اور بلاشبہ وہ اللہ کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے وہ تو ہر شے پر قادر و مسلط اور ہر شے کا حافظ و نگہبان ہے اور تمام کائنات اس کے قبضہ قدرت میں مسخر ہے۔ اے مرسی قوم کے لوگو ! اب بھی سمجھ جائو اور عقل و ہوش سے کام لو ، قوم نوح کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کے سامنے سر نیاز جھکا دو ورنہ قضاء و قدر کا ہاتھ ظاہر ہوچکا ہے اور وہ زمانہ بہت قریب ہے کہ تمہارا یہ سارا غرور و گھمنڈ خاک میں مل جائے اور اس وقت تم کو ندامت سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو۔ ہود (علیہ السلام) نے ان کو بار بار یہ بھی باور کرایا کہ میں تمہارا دشمن نہیں ہوں بلکہ صحیح معنوں میں دوست ہوں۔ تم سے زر و سیم اور ریاست کا طالب نہیں ہوں بلکہ تمہاری فلاح و نجات چاہتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے پغاوم کے بارے میں خائن نہیں بلکہ امین ہوں ، وہی کہتا ہوں جو مجھ سے کہا جاتا ہے ، جو کچھ کہتا ہوں قوم کی سعادت اور حسن حال و مال کیلئے کہتا ہوں بلکہ دائمی و سرمدی نجات کیلئے کہتا ہوں۔ اے قوم ! تم کو اپنی ہی قوم کے ایک انسان پر اللہ کے پیغامات نازل ہونے سے اچنبھا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ قدیم سے اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ انسانوں کو ہدایت وسعادت کیلئے انہی میں سے ایک شخص جو چن لیتا اور اپنا رسول بنا کر اس کو خطاب کرتا ہے اور اپنی مرضیات و نامرضیات سے اس کی معرفت اپنے بندوں کو مطلع کرتا رہتا ہے اور فطرت کا تقاضا بھی تو یہی ہے کہ کسی قوم کی رشد و ہدایت کیلئے ایسے شخص کا ہی انتخاب کیا جائے جو بول چال میں انہی کی طرح بلکہ انہی میں سے ہو تاکہ ان کے اخلاق و عادات کا واقف و دانا ہو۔ ان کے خصوصی امتیازات سے آشنا اور انہی کے ساتھ زندگی گزارتا رہا ہو کہ اس سے قوم مانوس ہو سکتی ہے اور وہی ان کا صحیح ہادی اور راہنما بن سکتا ہے۔ عاد نے جب یہ سنا تو وہ عجیب حیرت میں پڑگئے ، ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ ایک اللہ کی پرستش کے کیا معنی ہیں ؟ وہ ہود (علیہ السلام) کی باتیں سن کر مزید غم و غصہ میں آگئے کیونکہ ہود (علیہ السلام) کی ساری باتیں ان کے رسم و رواج کے خلاف تھیں اس لئے وہ غصہ میں آگئے کہ کس طرح ہم باپ دادا کی ریت ” اصنام تراشی اور اصنام پرستی “ کی چھوڑ دیں ؟ یہ تو ہمارے اور ہمارے سارے باپ دادوں کی سخت توہین ہے ان کا غیظ و غضب بھڑک اٹھا کہ ان کو کافر اور مشرک کیوں کہا جاتا ہے جب کہ وہ ان بزرگوں کو جن کے بت تراشے گئے ہیں اللہ کے سامنے اپنا شفیع مانتے ہیں ؟ ان کے نزدیک ہود (علیہ السلام) کی بات مان لینے میں ان کے معبودوں اور بزرگوں کی سخت توہین و تحقیر تھی جس کو وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ اور شفیع مانتے تھے اور اس کیلئے ان تصویروں اور مجسموں کو سامنے رکھتے تھے تاکہ جن بزرگوں کی یہ تصویریں اور مجسمے انہوں نے سامنے رکھے ہیں وہ خوش ہو کر ہماری سفارش کریں اور ہمیں عذاب الٰہی سے نجات دلائیں۔ مختصر یہ کہ ہود (علیہ السلام) کی باتیں سن کر وہ شعلہ کی طرح بھڑک اٹھے اور ہود (علیہ السلام) سے بگڑ کر کہنے لگے کہ تو نے ہم کو اپنے اللہ کے عذاب کی دھمکی دی ہے اور ہم کو اس طرح ڈرایا ہے کہ ” میں تمہارے اوپر بڑے دن کے عذاب آنے سے ڈرتا ہوں۔ “ تو اے ہود (علیہ السلام) ! اب ہم سے تیری روز روز کی یہ نصیحتیں بلکہ دھمکیاں نہیں سنی جاتیں ہم ایسے ناصح مشفق سے باز آئے۔ اگر تو واقعی اپنے قول میں سچا ہے تو وہ عذاب بلا لے تاکہ ہمارا تیرا قصہ پاک ہو۔ ” پس لے آئو ہمارے پاس اس شے کو جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اگر تو واقعی سچوں سے ہے۔ “ (الاعراف) ہود (علیہ السلام) نے قوم کی یہ باتیں سن کر ان کو جواب دیا کہ اگر میری مخلصانہ اور صادقانہ نصائح کا یہی جواب ہے تو ” بسم اللہ “ اور تم کو اگر عذاب کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ بھی کچھ دور نہیں ہے۔ ” بلاشبہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب و غضب آیا کہ بس آیا۔ “ (الاعراف) اگر تم کو شرم نہیں آتی کہ تم بزرگوں کے چند خود ساختہ بتوں کو ان کے نام گھڑ کر پکارتے ہو اور تم اور تمہارے آبائو اجداد ان کو اللہ کی دی ہوئی دلیل کے بغیر من گھڑت طریقہ پر ان کو اپنا شفیع اور سفارشی مانتے ہو اور میرے روشن دلائل سے انحراف اور سرکشی کر کے عذاب کے طالب ہوتے ہو اگر ایسا ہی شوق ہے تو اب تم بھی انتظار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ اس (فیصلہ) کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ ” کیا ہے جس کی بنا پر تم مجھ سے جھگڑ رہے ہو ؟ محض چند نام جو تم نے اور تمہارے بزرگوں یعنی باپ دادوں نے اپنے جی سے گھڑ لئے ہیں اور جن کیلئے اللہ تعالیٰ نے کوئی سند نہیں اتاری۔ اچھا آنے والے وقت کا انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں۔ “ (الاعراف) الحاصل قوم ہود کی انتہائی شرارت اور بغاوت اور اپنے رسول کی تعلیم سے بےپناہ بغض وعناد کی پاداش عمل اور قانون جزاء کا وقت آپہنچا اور غیرت حق حرکت میں آئی اور عذاب الٰہی نے سب سے پہلے خشک سالی کی شکل اختیار کی ، عاد سخت گھبرائے ، پریشان ہوئے اور عاجز و درماندہ آنے لگے تو ہود (علیہ السلام) کو جوش ہمدردی نے چین نہ لینے دیا اور مایوسی کے بعد پھر ایک مرتبہ ان کو سمجھایا کہ راہ حق کو اختیار کرلو ، میری نصائح پر ایمان لے آئو کہ یہی نجات کی راہ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ورنہ پچھتائو گے لیکن بدبخت اور بدنصبی قوم پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ بغض وعناد اور دوبالا ہوگیا تب ہولناک عذاب نے ان کو آگھیرا نتیجتاً آٹھ دن اور سات راتیں پیہم تیز و تند ہوا کے طوفان اٹھے اور ان کو ان کی آبادی کو تہ وبالا کر کے رکھ دیا ، تنو مند اور قوی ہیکل انسان جو اپنی جسمانی قوتوں کے گھمنڈ میں سرمست و سرکش تھے اس طرح بےحس و حرکت نظر آتے تھے جس طرح آندھی سے تناور درخت بےجان ہو کر گر جاتا ہے۔ غرض صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا تاکہ آنے والی نسلوں کیلئے عبرت بنیں اور دنیا و آخرت کی لعنت اور عذاب ان پر مسلط کردیا گیا کہ وہ اس کے مستحق تھے اور حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کے مخلص پیروان اسلام اللہ کی رحمت و نعمت میں عذاب الٰہی سے محفوظ رہے اور سرکش قوم کی سرکشی و بغاوت سے مامون ہوگئے۔ یہ ہے ” عاد اولی “ کی وہ داستان عبرت جو اپنے اندر چشم بینا رکھنے والوں کیلئے بیشمار پند و نصائح رکھتی اور رب العزت کے احکام کی تعمیل اور تقویٰ و طہارت کی زندگی کی جانب دعوت دیتی ہے ، شرارت ، سرکشی اور احکام الٰہی سے بغاوت کے انجام بد سے آگاہ کرتی اور وقتی خوش عیشی پر گھمنڈ کر کے نتیجہ کی بدبختی پر مذاق اڑانے سے ڈراتی اور باز رکھتی ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے اس واقعہ کا تفصیلی ذکر قرآن کریم نے جس عبرت آموز طریقہ پر کیا ہے اس کو پڑھئے اور موعظت دیکھ لیں عبرت اور گراں مایہ پند و نصائح کا سامان فراہم کیجئے کہ دنیا و آخرت کی سعادت و فلاح کی یہی بہترین ذخیرہ ہے۔ متعلقہ آیات کا ترجمہ دیا جا رہا ہے۔ متن قرآن کریم سے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” اور ہم نے قوم عاد کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے ہود (علیہ السلام) کو بھیجا اس نے کہا۔ اے قوم ! اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں کیا تم نہیں ڈرتے ہو ؟ اس پر قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کیا تھا کہ ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم حماقت میں پڑگئے ہو اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹ بولنے والوں سے ہو۔ ہود (علیہ السلام) نے کہا ، بھائیو ! میں احمق نہیں ہوں میں تو اس کی طرف سے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ، فرستادہ ہوں میں اس کا پیام تمہیں پہنچاتا ہوں اور یقین کرو کہ تمہیں دیانتداری کے ساتھ نصیحت کرنے والا ہوں۔ کیا تمہیں اس بات پر اچنبھا ہو رہا ہے کہ ایک ایسے آدمی کے ذریعے تمہارے پروردگار کی نصیحت تم تک پہنچی جو خود تم ہی میں سے ہے ؟ اللہ کا یہ احسان یاد کرو کہ قوم نوح کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تمہاری نسل کو زیادہ وسعت و توانائی بخشی ، پس چاہئے کہ اللہ کی نعمتوں کی یاد سے غافل نہ ہو تاکہ ہر طرح کامیاب ہو جائو۔ انہوں نے کہا کیا تم اس لئے ہمارے پاس آئے ہو کہ ہم صرف ایک اللہ کی پرستش کرنے لگیں اور ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ؟ اگر تم سچے ہو تو وہ بات لا دکھائو جس کا ہمیں خوف دلا رہے ہو۔ ہود (علیہ السلام) نے کہا یقین کرو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر عذاب واقع ہوگیا ہے (کہ تمہاری عقلیں ماری گئی ہیں اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہی کے حوالے کر رہے ہو) کیا ہے جس کی بناء پر تم مجھ سے جھگڑ رہے ہو ؟ محض چند نام جو تم نے اور تمہارے بزرگوں نے اپنے جی سے گھڑ لئے ہیں اور جن کیلئے اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری اچھا (آنے والے وقت کا) انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ پھر ایسا ہوا کہ ہم نے ہود (علیہ السلام) کو اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچالیا اور جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائی تھیں ان کی بیخ و بن اکھاڑ دی حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی ایمان لانے والے نہ تھے۔ (الاعراف 7 : 65 تا 71) ” اور ہم نے (قوم) عاد کی طرف اس کی بھائی بندوں میں سے ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ ہود نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، یقین کرو تم اس کے سوا کچھ نہیں ہو کہ (حقیقت کے خلاف) افتراء پردازیاں کر رہے ہو۔ اے میری قوم کے لوگو ! میں اس بات کیلئے تم سے کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا بدلہ تو اس پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا پھر کیا تم (اتنی صاف بات بھی) نہیں سمجھتے ؟ اور اے میری قوم کے لوگو ! اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو اور اس کی جناب میں توبہ کرو وہ تم پر برستے ہوئے بادل بھیجتا ہے اور تمہاری قوتوں پر نئی نئی قوتیں بڑھاتا ہے اور دیکھو جرم کرتے ہوئے اس سے منہ نہ موڑو۔ ان لوگوں نے کہا کہ اے ہود (علیہ السلام) ! تو ہمارے پاس کوئی دلیل لے کر تو آیا نہیں (جسے ہم دلیل سمجھیں) اور ہم ایسا کرنے والے نہیں کہ تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ، ہم تجھ پر ایمان لانے والے نہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی معبود کی تجھ پر مار پڑگئی ہے (اس لئے تو اس طرح کی باتیں کرنے لگا ہے۔ ) ہود (علیہ السلام) نے کہا ، میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جن ہستیوں کو تم نے اس کا شریک بنا رکھا ہے مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں ، تم سب مل کر میرے خلاف جو کچھ تدبیریں کرسکتے ہو ضرور کرو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو پھر دیکھو کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ میرا بھروسا اللہ پر ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی ، کوئی حرکت کرنے والی نہیں کہ اس کے قبضے سے باہر ہو میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے یعنی اس کی راہ ظلم کی راہ نہیں ہو سکتی۔ پھر اگر اس پر بھی تم نے روگردانی کی تو جس بات کیلئے میں بھیجا گیا تھا وہ میں نے تم کو پہنچا دی اور اگر تم ڈٹے رہے تو میرا پروردگار کسی دوسرے گروہ کو تمہاری جگہ دے دے گا اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے یقینا میرا پروردگار ہرچیز کا نگران حال ہے۔ یہ ہے سرگزشت عاد (علیہ السلام) کی۔ انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں جھٹلائیں اور ان کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر متکبر و سرکش کے حکم کی پیروی کی اور ایسا ہوا کہ دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت پڑی (یعنی وہ رحمت الٰہی سے دور کردیئے گئے) اور قیامت کے دن بھی۔ سن رکھو کہ قوم عاد نے اپنے پروردگار کی ناشکری کی اور سن رکھو کہ عاد کیلئے (بھی) محرومی کا اعلان ہوا جو عاد کی قوم تھی۔ “ (ہود 11 : 50 تا 60) ” پھر ہم نے قوم نوح کے بعد قوموں کا ایک دوسرا دور پیدا کردیا۔ ان میں اپنا رسول (ہود (علیہ السلام) بھیجا جو خود انہی میں سے تھا (اس کی پکار بھی یہی تھی) کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، کیا تم ڈرتے نہیں ؟ اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور آخرت کے پیش نظر آنے سے منکر تھے اور جنہیں دنیا کی زندگی میں ہم نے آسودگی دے رکھی تھی (لوگوں سے کہنے لگے) کہ اس سے زیادہ اس (ہود (علیہ السلام) کی کیا حیثیت ہے کہ تمہارے ہی جیسا ایک آدمی ہے۔ جو کچھ تم کھاتے پیتے ہو یہ بھی کھاتا ہے۔ اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی اطاعت کرلی تو بس سمجھ لو کہ تم تباہ ہوئے۔ تم سنتے ہو کہ یہ کیا کہتا ہے ؟ یہ تمہیں امید دلاتا ہے کہ جب مرنے کے بعد محض ہڈیوں اور مٹی کا چورہ چورہ ہو جائو گے تو پھر تمہیں موت سے نکالا جائے گا۔ کیسی انہونی بات ہے جس کی تمہیں توقع دلاتا ہے۔ زندگی تو بس ! یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں ، یہیں مرتے ہیں ، یہیں جینا ہے ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مر کر پھر جی اٹھیں ، کچھ نہیں یہ ایک مفتری آدمی ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ موٹ بات بنا دی ہم کبھی اس پر یقین لانے والے نہیں۔ اس پر اس رسول (ہود (علیہ السلام) نے دعا مانگی کہ اے اللہ ! انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے پس تو میری مدد فرما۔ حکم ہوا کہ عنقریب ایسا ہونے والا ہے کہ یہ لوگ اپنے کئے پر شرمسار ہوں گے۔ چناچہ فی الحقیقت ایک ہولناک آواز نے انہیں پکڑا اور ہم نے خس و خاشاک کی طرح انہیں پامال کردیا تو محرومی ہو اس گروہ کیلئے کہ ظلم کرنے والا ہے۔ (المومنون 23 : 31 تا 41) ” عاد (قوم) نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جب ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) نے ان سے کہا تھا کیا تم ڈرتے نہیں ؟ میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں ، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو ، گویا تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو تو جبار بن کر ہی ڈالتے ہو۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ڈرو اس سے جس نے تم کو وہ کچھ دیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمہیں جانور دیئے ، اولادیں دیں ، باغات دیئے اور چشمے دیئے۔ مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ تو نصیحت کر یا نہ کر ہمارے لئے سب یکساں ہے ، یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آرہی ہیں اور ہم عذاب میں مبتلا ہونے والے نہیں ہیں۔ آخر کار انہوں نے اس کو جھٹلا دیا اور ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ یقیناً اس میں ایک بڑی ہی نشانی ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور پیار کرنے والا بھی۔ “ (الشعراء 26 : 123 تا 140) ” عاد کا یہ حال تھا کہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیر بڑے بن بیٹھے اور کہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ زور آور۔ ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور ہے ؟ وہ ہماری آیات کا انکار ہی کرتے رہے آخر کار ہم نے چند منحوس دنوں میں سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی تاکہ انہیں دنیا ہی کی زندگی میں ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھا دیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہے وہاں کوئی ان کی مدد کرنے والا نیں ہ۔ “ (حم السجدہ 41 : 15 ، 16) ” ذرا انہیں عاد کے بھائی ہود (علیہ السلام) کا قصہ سنائو جب کہ اس نے احقاف میں اپنی قوم کو خبردار کیا تھا اور ایسے خبردار کرنے والے اس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ، مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کیا تو اس لئے آیا ہے کہ ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دے ؟ اچھا تو لے آ اپنا وہ عذاب جس سے تو ہمیں ڈراتا ہے اگر واقعی تو سچا ہے۔ اس نے کہا اس کا علم تو اللہ کو ہے میں صرف وہ پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں جسے دے کر مجھے بھاج۔ گیا ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو۔ پھر جب انہوں نے اس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر دے گا… نہیں ، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کیلئے تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آ رہا ہے ، اپنے رب کے حکم سے ہرچیز کو تباہ و برباد کر ڈالے گا ، آخر کار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس طرح ہم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ ان کو ہم نے وہ کچھ دیا تھا جو تم لوگوں کو نہیں دیا ہے۔ ان کو ہم نے کان ، آنکھیں اور دل سب کچھ دے رکھے تھے مگر نہ وہ کان ان کے کسی کام آئے ، نہ آنکھیں ، نہ دل کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور اس چیز کے پھیر میں وہ آگئے جس کا مذاق اڑاتے تھے۔ “ (تم بھی اپنے اپنے کانوں ، آنکھوں اور دلوں سے کام لیتے رہو۔ ) (الاحقاف 46 : 21 تا 26) ” اور (تمہارے لئے نشانی ہے) عاد میں جب کہ ہم نے ان پر ایک ایسی بےخیر ہوا بھیج دی کہ جس چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا۔ “ (الذاریات 51 : 42) ” عاد نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ میرا عذاب کیسا تھا ؟ اور کیسی تھیں میری تنبیہات ؟ ہم نے ایک پیہم نحوست کے دن سخت طوفانی ہوا ان پر بھیج دی جو لوگوں کو اٹھا اٹھا کر اس طرح پھینک رہی تھی جیسے وہ جڑ سے اکھڑے ہوئے تنے ہوں۔ پس دیکھ لو کہ کیا تھا میرا عذاب اور کیسی تھیں میری تنبیہات ؟ “ (القمر 54 : 18 تا 21) ” اور عاد ایک بڑی شدید طوفانی آندھی سے تباہ کردیئے گئے۔ اللہ نے اس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کر رکھا (تم وہاں ہوتے) تو پھر دیکھتے کہ وہ لوگ وہاں اس طرح بکھرے پڑے تھے جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔ اب کیا ان میں سے کوئی تمہیں باقی بچا ہوا نظر آتا ہے۔ “ (الحاقہ 69 : 6 ، 8) ” تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے عاد (قوم) کے ساتھ کیا کیا ؟ ہاں وہی اونچے ستونوں والے (عاد) ارم کے ساتھ ؟ جن کی مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی ؟ “ (الفجر 89 : 6 تا 8) یہ تھے وہ تذکار جو ہود (علیہ السلام) کی قوم جن کو ” عاد قوم “ کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے قرآن کریم میں بیان ہوئے۔ اب سیدنا ہود (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کے بعد خود ہود (علیہ السلام) کی وفات کے متعلق بھی مختلف اقوال بیان کئے گئے ہیں۔ چناچہ اہل عرب ہود (علیہ السلام) کی وفات اور ان کی قبر مبارک کے متعلق مختلف دعوے کرتے ہیں مثلاً اہل حضر موت کا دعویٰ ہے کہ عاد کی ہلاکت کے وقت وہ حضر موت کے شہروں میں ہجرت کر آئے تھے اور وہیں ان کی وفات ہوئی اور وادی ” برہوت “ کے قریب حضر موت کے مشرقی حصہ میں شہر ” تریم “ سے قریباً دو مرحلے پر دفن ہوئے۔ اور حضرت علی ؓ سے ایک اثر مروی ہے کہ ان کی قبر حضر موت میں ” کثیب احمر “ (ایک سرخ ٹیلہ) پر ہے اور ان کے سامنے جھائو کا درخت کھڑا ہے۔ اور اہل فلسطین کا دعویٰ ہے کہ وہ فلسطین میں دفن ہیں اور انہوں نے وہاں ان کی قبریں بنا رکھی ہیں اور حقیقت حال اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ان تمام روایات میں حضرموت کی روایات صحیح معلوم ہوتی ہیں اس لئے کہ عاد کی بستیاں حضرموت ہی کے قریب تھیں لہٰذا قرینہ یہی چاہتا ہے کہ قوم کی تباہی کے وقت ہود (علیہ السلام) قریب ہی کی آبادیوں میں قیام پذیر ہوئے ہوں گے اور وہیں وفات پائی ہوگی اور وہ یہی حضرموت کا مقام ہے۔ مزید تفصیلات کیلئے قصص القرآن کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اب اس جگہ استفادہ کیلئے چند باتوں کا مزید اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے تاکہ کچھ نہ کچھ ہماری یاد میں رہ جائے ، اللہ کرے کہ ہماری یاد میں کچھ رہ بھی جائے۔ 1۔ عاد قوم میں سیدنا ہود (علیہ السلام) کا ظہور ہوا۔ 2۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تمہارے عقائد و اعمال حقیقت کے خلاف محض افترا ہیں۔ 3۔ میں کسی معاوضے کا طالب نہیں یہ محض ادائے فرض کا تقاضا ہے جو مجھے دعوت الی الحق پر مجبور کر رہا ہے۔ 4۔ ان کی قوم نے ان کے مواعظ پر کان دھرنے سے کھلا کھلا انکار کردیا اور بالکل واضح الفاظ میں انہوں نے کہا کہ تمہارے پاس کوئی ایسی بات نہیں جو ہمارے نزدیک دلیل ہو اس لئے ہم تو اپنے معبودوں کی پرستش چھوڑنے والے نہیں۔ 5۔ ہمارے خیال میں جو بات آتی ہے وہ تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار تم کو لگ گئی ہے اس لئے ایسے خیالات آنے لگے ہیں۔ 6۔ ہود (علیہ السلام) نے کہا تم کہتے ہو کہ تمہارے معبودوں کی مجھ پر مار ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھے تمہارے معبودوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اب تم اور تمہارے سارے معبود سوائے اللہ کے جو کچھ میرے خلاف کرسکتے ہو کر دیکھیں۔ تمہارا بھروسہ ان معبودوں پر ہے ، میرا اللہ پر جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے ، جو میری اور تمہاری سب کی بگڑی بنانے والا ہے۔ 7۔ میرا کام تبلیغ حق تھا وہ میں نے کردیا اب اگر سچائی کی طرف سے تم نے رخ پھیر ہی لیا ہے تو جان لو کہ قانون الٰہی کے مطابق تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو مل جائے گی اور تم ہلاکت سے دوچار ہو جائو گے۔ 8۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ مومنوں نے نجات پائی ، سرکش ہلاک کردیئے گئے۔ 9۔ سورة ہود کی آیت 56 میں جو الفاظ ” ربی و ربکم “ آئے ہیں ان کا زور جس بات پر ہے اسے سمجھ لینا چاہئے۔ ان تمام مشرک قوموں کی جو دنیا میں گزر چکی یا اس وقت موجود ہیں کسی کو اس بات سے انکار نہ تھا کہ کوئی خالق ہستی موجود نہیں بلکہ سب کی سب قومیں ایسی ہستی تو مانتی تھیں اور مانتی ہیں یعنی توحید ربوبیت سے کوئی قوم نہ بیخبر تھی اور نہ ہے لیکن ساری گمراہی یہ تھی کہ توحید و الوہیت میں کھوئے گئے تھے کہ وہ سمجھتی تھیں اور سمجھتی ہیں کہ اس پروردگار ہستی کے ماتحت دوسری ہستیاں بھی ہیں جنہیں تصرف کا اختیار مل گیا ہے اس لئے ہمیں ان کی پرستش کرنی چاہئے پس ” ربی و ربکم “ کا مطلب یہ ہوا کہ میرا بھروسہ تو اس پر ہے جسے میں بھی رب یقین کرتا ہوں اور تم بھی رب مانتے ہو۔ 10۔ اس سورة کی آیت (59) سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد پر ظالم و سرکش حکمران حکومت کرتے تھے اور فراغنہ مصر کی طرح اپنے آپ کو الہ کا خطاب دیتے تھے۔ اس لئے اس جگہ فرمایا گیا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں (علیہ السلام) کی نافرمانی کی اور سرکش و ظالم حکمرانوں کا کہا مانا یعنی جو حق و صداقت اور عدل و انصاف کی طرف بلاتے تھے ان سے تو منکر ہوئے اور جو ظلم و سرکشی کرتے تھے ان کے پیچھے چلتے تھے اور اگر غور کرو گے تو آج بھی اسی طرح کی گمراہی عام دیکھو گے پھر ایسے گروہ کیلئے بجز ہلاکت اور کیا ہو سکتا ہے ؟ 11۔ اسی طرح ” رسلہ “ کے لفظ سے کس کو شبہ ہونا ممکن ہے کہ جب ذکر ہر جگہ ایک رسول (علیہ السلام) یعنی ہود (علیہ السلام) کا ہے تو ایک جگہ ” رسلہ “ یعنی انہوں نے رسولوں کا انکار کیا اس کا مطلب کیا ہوا ؟ بلاشبہ انہوں نے انکار تو ایک رسول (علیہ السلام) کا کیا تھا لیکن ہر رسول نے چونکہ ایک ہی تعلیم دی ہے اس لئے کسی ایک رسول (علیہ السلام) کا انکار اور ایک کا جھٹلانا سب کا جھٹلانا ہے۔ اس طرح ان کے انکار کو ” جحود “ سے تعبیر کیا کہ ” جعلوا بایات ربھم “ تاکہ واضح ہوجائے کہ ان کے انکار کی نوعیت کیا تھی ؟ ” جحود “ کے معنی یہ ہیں کہ محض ہٹ دھرمی اور شرارت سے انکار کیا تھا یہ نہیں کہ وہ اصل حقیقت کو سمجھ ہی نہ سکے ہوں۔ 12۔ ہود (علیہ السلام) اور دوسرے سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی یہ سنت ایک بہترین اسوہ ہے کہ تبیغو و پیغام حق کی راہ میں بدی کا بدلہ نیکی سے دیا جائے اور تلخی کا جواب شیریں کلامی سے دیا جائے۔ ہاں مبلغ ان لوگوں کی بدکرداری اور سرکشی پر اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون ” جزائے عمل “ یا ” پاداش عمل “ کو ضرور یاد دلاتا رہے اور آنے والے وقت کے انجام بد پر ان کو تنبیہہ کرے۔
Top