Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 51
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا١ۚ فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَا١ۙ وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنالیا دِيْنَهُمْ : اپنا دین لَهْوًا : کھیل وَّلَعِبًا : اور کود وَّغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فَالْيَوْمَ : پس آج نَنْسٰىهُمْ : ہم انہیں بھلادینگے كَمَا نَسُوْا : جیسے انہوں نے بھلایا لِقَآءَ : ملنا يَوْمِهِمْ : ان کا دن ھٰذَا : یہ۔ اس وَ : اور مَا كَانُوْا : جیسے۔ تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں سے يَجْحَدُوْنَ : وہ انکار کرتے تھے
جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا تھا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا تھا جس طرح انہوں نے اس دن کا آنا بھلا دیا تھا آج وہ بھی بھلا دیئے جائیں گے نیز اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں سے جان بوجھ کر انکار کرتے تھے
دنیا کی زندگی پر ریجھ جانے والوں کو اس دن بھلا دیا جائے گا : 62: دنیا میں ان کو موقع دیا گیا تھا لیکن اس کو انہوں نے بھلا دیا اور اپنے دین کو دین نہیں بلکہ کھیل وتماشا بنا رکھا تھا اور دنیا کی زندگی نے انہیں ایسا دھوکے میں ڈالا کہ ان کو آخرت کبھی بھول کر بھی یاد نہ آئی۔ بھلا دینے کے یہاں کیا معنی ہیں ؟ امام رازی (رح) فرماتے ہیں ایک معنی یہ ہیں کہ ہم انہیں چھوڑ دیں گے اور ان کو نجات نہیں دیں گے دوسرے یہ کہ ہم ان سے ایسا برتائو کریں گے جیسے ہم نے ان کو فراموش کردیا ہے۔ گویا انہوں نے ہمارے پیغام کو چھوڑا اور ہم نے ان کا دھیان چھوڑا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ ہماری آیتوں سے جان بوجھ کر انکار کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں اللہ نے ان پر دین کی حیثیت سے اتاریں ان کو انہوں نے ہنسی ومسخری میں اڑا دیا۔ دین کیوں آیا ؟ اس لئے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں صحیح نقطہ نظر متعین کرے تاکہ لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کی بجائے فلاح وسعادت کی راہ اختیار کریں لیکن جن لوگوں نے اس زندگی کو لہو ولعب سمجھ رکھا ہے وہ اپنی خواہشات کے پیچھے ایسے اندھے ہوجاتے ہیں کہ وہ خواہشات کے خلاف نہایت سنجیدہ حقیقت کو بھی مذاق تصور کرتے ہیں ” زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ “ یہ گویا ان کے لا ابالانہ طرز عمل کی وجہ بیان ہو رہی ہے کہ وہ کیوں زندگی کی نہایت سنجیدہ حقیقتوں سے اندھے بنے رہے فرمایا اس لئے کہ دنیا کہ زندگی نے ان کو دھوکے میں رکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ کھا رہے ہیں ، پی رہے ہیں ، عیش کر رہے ہیں ، دندنا رہے ہیں اور کوئی باز پرس ان سے نہیں ہو رہی اس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ بس دنیا ان کے لئے پیدا ہوئی ہے اور اس طرح وہ آخرت کی طرف سے ایسے غافل ہوئے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ رہی کہ ایک دن روز حساب آئے گا اور ہم اپنا حساب دینے کے لئے پیش ہوں گے اور یاد کرانے والوں کو انہوں نے دقیانوس اور بنیاد پرست قرار دے کر ان سے پیچھا چھڑا یا۔
Top