Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 102
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا١ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور اعْتَرَفُوْا : انہوں نے اعتراف کیا بِذُنُوْبِهِمْ : اپنے گناہوں کا خَلَطُوْا : انہوں نے ملایا عَمَلًا صَالِحًا : ایک عمل اچھا وَّاٰخَرَ : اور دوسرا سَيِّئًا : برا عَسَى : قریب ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يَّتُوْبَ عَلَيْهِمْ : معاف کردے انہیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور کچھ دوسرے ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا، انھوں نے کچھ عمل نیک اور کچھ دوسرے برے ملا دیے، قریب ہے کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہوجائے۔ یقینا اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ : (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ) والی آیت میں مسلمانوں کے بہترین لوگوں کا ذکر ہے اور (وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ) میں مسلمان کہلانے والے بدترین لوگوں کا ذکر ہے، جو آگ کے درک اسفل (سب سے نچلے حصے) کا ایندھن بننے والے ہیں اور اب عام مسلمانوں کا ذکر ہے جن کے صالح اعمال بھی ہیں اور کچھ اعمال سیۂ (برے کام) بھی ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ مفسرین نے یہاں ابولبابہ ؓ وغیرہ کا تذکرہ فرمایا کہ وہ مخلص مسلمان ہونے کے باوجود تبوک پر نہ جاسکے تو انھوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خود کھولیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری توبہ قبول ہوگئی۔ آخر کار رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے حکم سے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور پہلے ان کا پیش کردہ صدقہ قبول نہیں کیا تھا پھر اگلی آیت (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً) اتری تو ان کا صدقہ بھی قبول فرمایا۔ اس مفہوم کی اکثر روایات مرسل یا کمزور ہیں، البتہ ”الاستیعاب فی بیان الأسباب“ میں ابن عباس اور جابر ؓ کی ایک روایت کو حسن قرار دیا گیا ہے، جس میں ابولبابہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے پر اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھنے اور آخر کار اللہ کے حکم سے رسول اللہ ﷺ کے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولنے کا اور (ۚوَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ) سے (اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ) تک آیات اترنے کا ذکر ہے۔ (واللہ اعلم) البتہ اس بات میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ جس طرح (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ) والی آیت میں مذکور افراد (وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ) میں قیامت تک صحابہ کرام ؓ کے تمام محسن پیروکار شامل ہیں، اسی طرح یہ آیت قیامت تک آنے والے تمام گناہ گار مخلص مسلمانوں کو شامل ہے، جنھوں نے اپنے اچھے اعمال کے ساتھ کچھ دوسرے برے اعمال بھی ملا جلا رکھے ہیں۔ سند کے لحاظ سے اس کی صحیح ترین تفسیر وہ ہے جو امام بخاری ؓ نے اس آیت کی تفسیر میں اپنی صحیح میں درج فرمائی ہے کہ سمرہ بن جندب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”آج رات دو آنے والے میرے پاس آئے، انھوں نے مجھے اٹھایا، پھر وہ مجھے ایک ایسے شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کا نصف بدن سب سے زیادہ خوبصورت شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو اور نصف اس بدصورت ترین شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا، اس نہر کے اندر داخل ہوجاؤ، وہ اس میں داخل ہوگئے، پھر ہماری طرف واپس آئے تو ان سے وہ بدصورتی جا چکی تھی اور وہ بہترین صورت میں بدل چکے تھے۔ دونوں (فرشتوں) نے مجھ سے کہا، یہ جنت عدن ہے اور وہ تمہارا گھر ہے۔ دونوں نے کہا کہ وہ لوگ جن کا نصف حصہ خوبصورت اور نصف بدصورت تھا (فَاِنَّھُمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّءًا تَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْھُمْ) تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے نیک عمل کیے اور ان کے ساتھ برے عمل بھی ملا جلا دیے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرما دیا۔“ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : (وآخرون اعترفوا بذنوبہم) : 4674 ]
Top