Anwar-ul-Bayan - Yunus : 26
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌ١ؕ وَ لَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّ لَا ذِلَّةٌ١ؕ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ اَحْسَنُوا : انہوں نے بھلائی کی الْحُسْنٰى : بھلائی ہے وَزِيَادَةٌ : اور زیادہ وَلَا يَرْهَقُ : اور نہ چڑھے گی وُجُوْهَھُمْ : ان کے چہرے قَتَرٌ : سیاہی وَّلَا ذِلَّةٌ : اور نہ ذلت اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے ھُمْ : وہ سب فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
جن لوگوں نے اچھائی کے کام کئے ان کیلئے خوبی ہے اور اس سے زائد بھی ہے ' اور ان کے چہروں پر نہ کدورت چھائے گی اور نہ ذلت ' یہ لوگ جنت والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے '
دوسری آیت میں فرمایا (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُو الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے حسنیٰ ہے اور زیادہ انعام ہے حسنیٰ فعلی کے وزن پر ہے جس کا لغوی ترجمہ ” خوبی “ سے کیا گیا ہے۔ حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ حسنی سے جنت مراد ہے اور زیادہ سے دیدار الٰہی مراد ہے۔ جنت میں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی کسی کی کمی نہ ہوگی۔ وہ خود بہت بڑی جگہ ہے لیکن اس نعمت پر مزید نعمت یہ ہوگی کہ اہل جنت اپنے رب جل مجدہ کا دیدار بھی کریں گے۔ تفسیر در منثور (ص 305) میں حضرت صہیب ‘ حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت کعب بن عجرہ اور حضرت ابی بن کعب اور حضرت انس بن مالک ؓ سے متعدد کتب حدیث کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زِیَادَۃٌ کی تفسیر فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ زِیَادَۃٌ سے اللہ جل شانہ کا دیدار مراد ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت صہیب ؓ سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ جل شانہ ‘ کا ارشاد ہوگا کیا تم کچھ اور چاہتے ہو جو تمہیں عطا کر دوں وہ عرض کریں گے (ہمیں اور کیا چاہئے) کیا آپ نے ہمارے چہرے سفید نہیں کر دئیے اور کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا اور کیا آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی (یہ بہت بڑا انعام ہے) اس کے بعد پردہ اٹھا دیا جائے گا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے ‘ انہیں کوئی بھی ایسی چیز نہ دی جائے گی جو انہیں اپنے رب کے دیدار سے بڑھ کر محبوب ہو اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) (رواہ مسلم ص 100 ج 1) پھر اہل جنت کے ایک مزید انعام کا تذکرہ فرمایا (وَلَا یَرْھَقُ وُجُوْھَھُمْ قَتَرٌوَّلَا ذِلَّۃٌ) (ان کے چہروں پر کدورت چھائی ہوئی نہ ہوگی اور نہ ذلت) یعنی ان کے چہرے بد صورت نہ ہوں گے ان پر ذلت کا کوئی اثر نہ ہوگا سورة القیامہ میں فرمایا (وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ نَّاضِرَۃٌ اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ) (اس دن بہت سے چہرے ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے) سورة المطفّفین میں فرمایا (تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ ) (اے مخاطب تو ان کے چہروں میں نعمت کی ترو تازگی کو پہچانے گا) جو شخص دارالسلام میں ہو اپنے رب کا دیدار کرتا ہوں اس کا چہرہ کیوں حسین و جمیل اور پر رونق نہ ہوگا ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ساری امتوں کے درمیان سے میں اپنی امت کو اس طرح پہچان لوں گا کہ ان کے چہرے روشن ہوں گے اور ان کے ہاتھ پاؤں وضو کے اثر سے سفید ہوں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 40) پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) (یہ لوگ جنت والے ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)
Top