Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Yunus : 62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
اَلَآ
: یاد رکھو
اِنَّ
: بیشک
اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ
: اللہ کے دوست
لَا خَوْفٌ
: نہ کوئی خوف
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا
: اور نہ
ھُمْ
: وہ
يَحْزَنُوْنَ
: غمگین ہوں گے
خبردار بلاشبہ جو اولیاء اللہ ہیں ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے
اولیاء اللہ نہ خوف زدہ ہوں گے نہ غمگین یہ تین آیات ہیں ان میں اولیاء اللہ کی فضیلت اور ولایت کی حقیقت بتائی اور یہ بتایا کہ اولیاء اللہ کے لئے دنیا میں اور آخرت میں بشارت ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے ‘ ولی دوست اور قریب کو کہتے ہیں۔ اولیاء کون لوگ ہیں اس کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیا یہ لوگ اولیاء اللہ ہیں۔ ایمان کے بغیر تو اللہ کا کوئی دوست ہو ہی نہیں سکتا۔ خواہ کیسی ہی ریاضت کرے اور عبادت کے نام سے کچھ بھی عمل کرے۔ کافر اور مشرک اللہ کا مقرب اور مقبول بندہ اور اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ اہل ایمان کے درجات مختلف ہیں۔ ایمان کی صفات کے کم وبیش ہونے اور ایمانی تقاضوں پر عمل کرنے میں اور عبادت ‘ تلاوت ‘ ذکر کی کیفیات اور کمیات کے اختلاف سے فرق مراتب ہوجاتا ہے اور کون شخص کس درجہ کا ولی ہے بندے اس کے ظاہری حالات سے اندازہ لگا سکتے ہیں ‘ چونکہ ہر ایک کے ظاہر و باطن کا صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس لئے فرق مراتب کا صحیح علم بھی اسی کو ہے۔ فرائض اور واجبات کا اہتمام ابتاع سنت کا دھیان۔ نوافل کی کثرت۔ ذکر اللہ کی مشغولیت اور صفت احسان (اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ) کا حصول۔ خشوع خضوع ‘ اخلاص ‘ مکارم اخلاق ‘ محاسن الافعال ان سب چیزوں کے ذریعہ حسب مراتب درجہ بدرجہ اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اسی کا نام ولایت ہے۔ صحیح مسلم (ص 47 ج 1) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً وَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَدْنَاھَا اَمَاطَۃُ الْاِذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَان ستر سے کچھ اوپر ایمان کے شعبے میں سے سب سے افضل لا الہ الا اللہ کہہ لینا ہے ( یعنی سچے اعتقاد کے ساتھ کلمہ طیبہ پر ایمان لانا ہے) اور ان میں سب سے کم درجہ کی بات یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دی جائے ‘ اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ اس میں ایمان کے ستر سے کچھ اوپر شعبے بتائے ہیں جس میں ادنیٰ شعبہ یہ بتایا ہے کہ راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دی جائے ‘ اور خصوصیت کے ساتھ حیاء کو ایمان کے شعبوں میں شمار فرمایا ہے ہر وہ عمل جو ایمان کے تقاضوں کے موافق ہو اور اللہ کی رضا کے لئے ہو وہ سب قرب خداوندی اور رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اولیاء اللہ کی تعریف میں جو اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فرمایا یہ ایمان کے تمام تقاضوں کو شامل ہے فرائض سے لے کر مستحبات تک جو بھی کرنے کے کام ہیں وہ سب اللہ کا قرب حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں۔ یہ تو ایمان کے تقاضوں کا ذکر ہوا جن پر عمل کرنا ہے ان کے علاوہ دوسرے تقاضے بھی ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جن کے ارتکاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس کو وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ میں بیان فرما دیا۔ حرام سے لے کر مکروہ تنزیہی تک جو اعمال ترک کرنے کے ہیں ان سے بچنا بھی رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے۔ اور یہ بھی عبادت ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ (اِتَّقِ الْمَحَارِمَ تَکُنْ اَعْبُدَ النَّاسِ ) کہ تو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچ ‘ ایسا کرنے سے تو دوسروں سے بڑھ کر عبادت گزار ہوگا (مشکوٰۃ المصابیح ص 440) جو شخص مامورات پر عمل کرتا رہے اور منھیات سے بچتا رہے اور رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے اتباع کا اہتمام کرتا رہے جسے (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ) میں بیان فرمایا ہے ایسے شخص کو اپنے اپنے عمل کے اعتبار سے قرب الٰہی حاصل ہوگا اور اسی درجہ کی ولایت حاصل ہوگی جس درجہ کے اعمال ہوں گے اور جس قدر دنیاوی اشغال و افکار سے ذہن فارغ ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے لو لگی ہوگی اسی قدر قرب الٰہی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ان اللّٰہ تعالیٰ قال من عادی لی ولیًّا فقد آذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبدی بشیء احب إلی مما افترضتہ علیہ وما یزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتیٰ احببتہ فاذا احْبَبِتہٗ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصرہ بہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا۔ (بےشک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے جس نے میرے ولی سے عداوت کی میں نے اس سے اعلان جنگ کیا اور میرے بندے کا میرے فرائض کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ‘ اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب فرائض کی ادائیگی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور نوافل کے ذریعہ بھی تقرب بڑھتا رہتا ہے ان امور کو سامنے رکھ کر سمجھ لیا جائے کہ ولایت ‘ فرائض واجبات اور مستحباب اور مندوبات اور ابتاع سنت کے اہتمام اور ترک منہیات کا نام ہے یہ جو لوگوں میں مشہور ہے کہ ولی وہ ہے جس سے کوئی کرامت صادر ہو یا صوفیہ کے کسی سلسلہ میں داخل ہو یا کسی خانقاہ کا گدی نشین ہو یا نسب کے اعتبار سے سید ہو وہ ولی ہے خواہ کیسے ہی اعمال کرتا ہو اور کیسا ہی دنیا دار ہو اور کیسا ہی تارک فرائض اور مرتکب محرمات ہو۔ یہ جہالت کی بات ہے ‘ جو شخص متبع شریعت نہیں وہ اللہ کا دوست نہیں ہے۔ اب تو گدیاں عموماً جلب زرہی کے لئے رہ گئی ہیں۔ جہاں کہیں تھوڑا بہت ذکر و شغل اور ریاضت ہے وہ بھی منکرات کے ساتھ ہے۔ قلب جاری ہے لیکن اکل حلال کا اہتمام نہیں۔ بینک میں کام کرتے ہیں پھر بھی صوفی ہیں داڑھی کٹی ہوئی ہے پھر بھی بزرگ ہیں۔ نماز نہیں پڑھتے اور مریدوں سے کہہ دیتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ میں پڑھتا ہوں بزرگی کے ڈھنگ رہ گئے ہیں اور ایسے لوگوں کو ولی سمجھا جاتا ہے۔ ولایت اتباع شریعت کا نام ہے اور حضرات صوفیاء کرام اسی کے لئے محنت اور ریاضت کراتے تھے کہ شریعت طبیعت ثانیہ بن جائے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر چلنا آسان ہوجائے۔ اب تو گدی نشینوں کے نزدیک ولایت اور بزرگی کا مفہوم ہی پلٹ گیا۔ یہاں تک تو ولایت کی حقیقت بیان کی گئی جس سے یہ معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کون ہیں ‘ اب یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اولیاء اللہ کے لئے جس انعام کا وعدہ فرمایا وہ (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ہے۔ سورة بقرہ میں فرمایا ہے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) (بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا ثواب ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گے) اس آیت سے معلوم ہوا کہ (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) کی خوشخبری مؤمنین صالحین کے لئے ہے اور دونوں آیتوں کے ملانے سے ولایت کا مصداق بھی معلوم ہوگیا (جس کی تشریح ہم اوپر کرچکے ہیں) حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں بہت سے ایسے بندے ہوں گے جو نہ نبی ہیں نہ شہید ہیں قیامت کے دن انبیاء اور شہداء بھی ان کے اس مرتبہ کی وجہ سے جو اللہ کے نزدیک ہے ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ کون لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے قرآن کی وجہ سے محبت کریں گے ان کی آپس کی یہ محبت نہ آپس کی رشتہ داریوں کی وجہ سے ہوگی اور نہ اموال کے لین دین کی وجہ سے (یہ محبت صرف اللہ تعالیٰ سے تعلق کی بنیاد پر ہوگی) اللہ کی قسم ان کے چہرے نور ہوں گے اور وہ نور پر بیٹھے ہوں گے جس دن لوگ خوف زدہ ہوں گے۔ یہ خوف زدہ نہ ہوں گے اور جس دن لوگ رنجیدہ ہوں گے اس دن یہ لوگ رنجیدہ نہ ہوں گے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہی آیت (لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) تلاوت فرمائی۔ (رواہ ابو داؤد کما فی المشکوٰۃ ص 426) اس حدیث سے معلوم ہوگیا کہ اولیاء اللہ کے بارے میں جو یہ فرمایا ہے کہ ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے اس سے قیامت کے دن بےخوف اور بہ اطمینان ہونا مراد ہے لہٰذا یہ اشکال دور ہوجاتا ہے کہ بعض مرتبہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو خوف لاحق ہوا اور بعض احوال میں غمگین ہوئے اسی طرح بہت سے اولیاء اللہ پر بعض حالات میں خوف اور حزن یعنی غم طاری ہوا کیونکہ یہ دنیاوی احوال ہیں آخرت میں یہ حضرات خوف وحزن سے محفوظ ہوں گے۔ یہ جو فرمایا کہ حضرات انبیاء اور شہداء بھی ان کا مرتبہ دیکھ کر ان پر رشک کریں گے اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرات انبیاء اور شہداء خوف زدہ اور غمگین ہوں گے بلکہ مطلب یہ ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی امتوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے بارے میں گواہی دینے اور ان کی سفارشیں کرنے میں مشغول ہوں گے اور حضرات شہدا کرام بھی سفارش میں لگے ہوئے ہوں گے دوسرے اولیاء اللہ بےفکر بےغم ہوں گے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ رشک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرات ان لوگوں کی تعریف کریں گے جنہوں نے اللہ کے لئے آپس میں محبت کی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ ہر مومن کو کچھ نہ کچھ ولایت کا درجہ حاصل ہے اس درجہ کی وجہ سے جنت کا داخلہ مل جائے گا اور جنہوں نے گناہوں کے ذریعے اس ولایت کو مکدر کردیا ان میں سے جو شخص سزا پانے کے لئے دوزخ میں جائے گا وہ بھی سزا پا کر اسی ولایت کی وجہ سے جو اسے حاصل تھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ اگر اپنی ولایت کی لاج رکھتا اور گناہوں سے بچتا جس سے اونچے درجہ کی ولایت حاصل ہوتی تو دوزخ میں نہ بھیجا جاتا۔ اولیاء اللہ کے لئے مزید انعام کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ ) کہ اولیا کے لئے دنیا والی زندگی میں اور آخرت میں بشارت ہے۔ اس بشارت سے کیا مراد ہے اس بارے میں حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اس بشارت سے کیا مراد ہے آپ ﷺ نے فرمایا تم نے مجھ سے ایسی بات کا سوال کیا ہے جو اس سے پہلے مجھ سے کسی نے بھی دریافت نہیں کی پھر فرمایا کہ اس سے اچھی خوابیں مراد ہیں جنہیں آدمی خوددیکھ لے یا اس کے لیے دیکھ لی جائے (مسند احمد ص 315 ج 5) مطلب یہ ہے کہ مومن بندے ایسے خواب دیکھ لیتے ہیں جن میں ان کے لئے خیر و خوبی کی اور حسن خاتمہ کی اور اعمال کے مقبول عند اللہ ہونے کی نیز جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری ہوتی ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو ایسی خوابیں دکھائی جاتی ہیں جن میں کسی مومن بندے کے لئے بشارت ہوتی ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے بشارت کا ایک مصداق بیان فرما دیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمائیے ایک شخص کوئی خیر کا کام کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں (اس کی وجہ سے اس کا ثواب ختم تو نہیں ہوجاتا جبکہ اس نے وہ عمل اللہ کے لئے کیا ہے) آپ نے فرمایا کہ یہ تو مومن کے لئے ایک بشارت ہے جو اس دنیا میں اسے مل گئی۔ (رواہ مسلم ص 332 ج 2) اس سے معلوم ہوا کہ کسی صالح بندہ سے لوگوں کا محبت کرنا ان کی تعریف کرنا اور ان کو اچھا سمجھنا اس میں اس بات کی بشارت ہے کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ کا مقبول بندہ ہے۔ کیونکہ اہل ایمان کا کسی کو اچھا کہنا یہ اس کے اچھا ہونے کی دلیل ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ دنیا کی بشارت یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے بشارت لے کر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ سے جو ایک طویل حدیث موت اور مابعد الموت کے احوال کے بارے میں مروی ہے اس میں موت کے وقت اللہ کی رضا مندی کی بشارت کا ذکر ہے۔ نیز قبر میں بشارت دئیے جانے کا ذکر بھی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 142) حضرت حسن ؓ نے فرمایا کہ اس سے وہ بشارت مراد ہے جس کا اللہ نے مومنین سے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں جنت کا داخلہ نصیب ہوگا اور ان کے اعمال کا بہت اچھا ثواب ملے گا۔ جیسا کہ سورة بقرہ (ع 3) میں فرمایا (وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تِحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ) اور سورة بقرہ (ع 19) (وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ) اور سورة بقرہ (ع 28) میں (وَبَشِّرِالْمُؤْمِنِیْنَ ) فرمایا ہے۔ بشارتیں اس دنیا میں دے دی گئیں ‘ (لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ) اللہ کی باتوں یعنی اللہ کے وعدوں میں کوئی تبدیلی نہیں جو وعدے فرمائے ہیں وہ سب پورے ہوں گے جو بشارتیں دی ہیں وہ سچی ہیں ‘ ان کے مطابق انعام دیا جائے گا۔ (ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) ۔ (یہ بشارت بڑی کامیابی ہے)
Top