Maarif-ul-Quran - Yunus : 62
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ : اللہ کے دوست لَا خَوْفٌ : نہ کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
سُن رکھو کہ جو خدا کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔
بیان حال و مآل اولیاء اللہ قال اللہ تعالی۔ الا ان اولیاء اللہ۔۔ الی۔۔۔ ھو الفوز العظیم (ربط): گزشتہ آیات میں اعداء اللہ یعنی فاسقین اور معاندین کا حال اور مآل بیان کیا اب اس آیت میں اولیاء اللہ یعنی خدا کے محبین وصادقین کا حال اور مآل بیان کرتے ہیں کہ اولیاء اللہ (یعنی خدا کے دوست) وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقویٰ کے ساتھ موصوف ہوں جس درجہ کا ایمان اور تقوی ہوگا اسی درجہ کی ولایت ہوگی۔ اس اعتبار سے ہر مومن ولی ہے کتاب وسنت کے عرف میں ولی اس شخص کو کہتے ہیں جس میں ایک خاص اور ممتاز درجہ کا ایمان اور تقوی پایا جاتا ہو وہ یہ کہ اللہ کی عظمت اور اس کا جلال ہر وقت اس کی نظروں کے سامنے ہو اور اس کا قلب اللہ کی محبت اور اس کی خشیت سے لبریز ہو اور لفظ الذین امنوا وکانوا یتقون اولیاء اللہ کی تعریف ہے کہ اللہ کا ولی اور مکمل ہو یا بالفاظ دیگر ولی وہ ہے جو ایمان میں کامل ہو اور حتی الوسع حق عبودیت میں مقصر نہ ہو۔ (ربط دیگر): کہ گزشتہ آیات میں اعداء اللہ کی تہدید اور وعید کا بیان تھا۔ اور اس آیت میں اولیاء اللہ کی تسلی اور بشارت کا مضمون ہے کہ خدا کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی غم ہے ان کے لیے تو دنیا اور آخرت کی بشارت ہے اور یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے اور اللہ پر دوست اور دشمن مخفی نہیں آگاہ ہوجاؤ۔ اچھی طرح سن لو تحقیق اللہ کے دوستوں پر نہ آئندہ کا کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کسی مطلوب کے فوت ہونے سے غمگین ہوں گے اور خدا کے دوست اور ولی وہ لوگ ہیں جو ایمان لے آئے اور اس پر ایسے مستقیم اور ثابت قدم ہوگئے کہ تزلزل کا نام ونشان نہ رہا اور تقویٰ اور پرہیزگاری کو لازم پکڑے ہوئے ہیں کہ ہر وقت خدا کی معصیت اور اس کی ناراضی سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں حاصل یہ کہ اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں جو ایمان اور تقویٰ کے جامع ہوں اس لیے کہ جب ایمان کامل ہوتا ہے اور خدا سے جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے ڈرتا ہے تب خدا کا ولی اور دوست ہوجاتا ہے۔ ان کے لیے خوشخبری ہے دنیاوی زندگانی میں اور آخرت میں اولیاء اللہ کے لیے دنیا میں کئی طرح کی بشارتیں ہیں ایک بشارت تو یہی لاخوف علیھم ولاھم یحزنون کی ہے اور ایک بشارت وہ ہے جو ملائکہ ان کو موت کے وقت دیں گے۔ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم تو عدون۔ الآیات اور ترمذی میں عبادۃ بن الصامت ؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ حق تعالیٰ کے قول لھم البشریٰ فی الحیوۃ الدنیا سے کیا مراد ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا اس سے مراد وہ رویائے صالحہ یعنی وہ سچا خواب ہے جو خود مومن دیکھتا ہے یا اس کے متعلق کسی دوسرے مومن کو دکھلایا جاتا ہے اور بعض علماء کا قول ہے کہ دنیا کی بشارت سے مراد ذکر جمیل اور ثناء حسن ہے اور آخرت کی بشارت سے جنت کی بشارت مراد ہے۔ کما قال تعالیٰ بشراکم المیوم جنت تجری من تحتھا الانہر۔ اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں اللہ کے سب وعدے اٹل ہیں خدا نے اپنے دوستوں سے جو وعدے کیے ہیں وہ ضروری پورے ہوں گے۔ یہ بشارت دارین بھی بڑی کامیابی ہے جس کے بعد کامیابی کا کوئی درجہ ہی نہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کی فضیلت بیان فرمائی اور بتلایا کہ اولیاء اللہ کا مصداق کون لوگ ہیں اور ولایت کی حقیت کیا ہے۔ اولیاء اللہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ پر پورے طور پر ایمان لائے۔ اور ہمیشہ اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور حقیقت ایمان کی تشریح سورة انفال میں اس طرح فرمائی۔ انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم الایۃ۔ فائدہ : حدیث میں ہے کہ نبوت تو ختم ہوئی البتہ نبوت کا ایک جزء یعنی رویائے صالحہ باقی رہ گیا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی تو نہیں مگر خدا کے دوستوں کے لیے وحی کا ایک نمونہ یعنی سچا خواب باقی رہ گیا ہے کہ قیامت تک آنے والے مومنین صالحین کو سچے خوابوں سے بشارتیں ملتی رہیں گی۔ مرزا غلام احمد قادیانی اس آیت سے یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد بھی نبوت کا سلسلہ باقی ہے اس لیے کہ رویائے صالحہ نبوت کا ایک جزو ہے جو ہنوز باقی ہے تو معلوم ہوا کہ نبوت الٰہی باقی ہے۔ مگر مرزائے قادیان کا یہ گمان استدلال نہیں بلکہ صریح جہالت اور ہذیان ہے حدیث میں ہے کہ رویائے صالحہ نبوت کا چالیسواں جزء ہے۔ معلوم ہوا کہ نبوت چالیس اجزاء کے مجموعہ کا نام ہے۔ لہذا ایک جزء کے پائے جانے سے کیسے نبوت حاصل ہوسکتی ہے۔ شریعت کی نظر میں دو سو درہم کا مالک ہونے غنی اور صاحب نصاب ہوتا ہے اور اس پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے۔ اگر دوسود رہم میں سے ایک درہم بھی کم ہوجائے تو وہ غنی نہیں رہتا۔ چہ جائیکہ کسی کے پاس دو سو درہم کا چھیالیسواں حصہ یعنی چار درہم پورے ہوں تو شریعت کی نظر میں وہ غنی نہیں بلکہ فقیر اور مفلس ہے۔ نیز مرزا غلام احمد کے قول پر لازم آتا ہے کہ جس فاسق وفاجر کو رویائے صالحہ نظر آجائے وہ نبی ہوجائے کیونکہ مرزا لکھتا ہے کہ : جبرئیلی نور یعنی نبوت کا چھیالیسواں حصہ یعنی سچا خواب تمام جہان میں پھیلا ہوا ہے جس سے کوئی فاسق وفاجر اور پرلے درجہ کا بدکار بھی باہر نہیں بلکہ یہاں تک مانتا ہوں کہ تجربہ میں آچکا ہے بعض اوقات ایک نہایت درجہ کی فاسقہ عورت جو کنجریوں کے گروہ میں سے ہو جس کی تمام جوانی بدکاری میں گزری ہے کبھی سچا خواب دیکھ لیتی ہے۔ (توضیح المرام ص 38، 37) پس مرزا کے اس قول کی بنا پر کہ سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور جس کو یہ چھیالیسواں حصہ حاصل ہو وہ نبی ہے تو اب تمام فاسق وفاجر اور پرلے درجہ کی بدکار رنڈیوں کا مرزا کے قول پر نبی ہونا جائز ہوگا۔ اور مرزائے غلام احمد اور اس کی امت پر اس کنجری کی نبوت پر ایمان لانا فرض ہوگا جس کو کوئی سچا خواب نظر آگیا۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ نیز مرزائے قادیان کے بہت سے پیروؤں نے مرزا کے بعد رویائے صالحہ اور نبوت کا دعوی کیا ہے مگر مرزا نے ان کی نبوت کو تسلیم نہیں کیا۔ اور نبی کی نبوت کو نہ تسلیم کرنا یہ کفر ہے۔ پس مرزا صاحب خاتم الانبیاء ﷺ کی نبوت کے انکار سے بھی کافر ہوئے اور اپنے بعد مدعیان نبوت کی نبوت کے انکار سے بھی کافر ہوئے۔
Top