Anwar-ul-Bayan - At-Takaathur : 8
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر لَتُسْئَلُنَّ : تم پوچھے جاؤگے يَوْمَئِذٍ : اس دن عَنِ النَّعِيْمِ : نعمتوں کی بابت
پھر اس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور ضرور سوال کیا جائے گا۔
﴿ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ (رح) 008﴾ صاحب روح المعانی نے یہاں طویل مضمون لکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نعمتوں کا سوال کس سے ہوگا اور کب ہوگا ؟ چونکہ یہ آیت بھی ما سبق پر معطوف ہے اور اس میں بھی جمع مذکر حاضر کا صیغہ لایا گیا ہے اس لیے سیاق کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب بھی انہی لوگوں سے ہوگا جو دوزخ کو دیکھیں گے اور دوزخ میں داخل ہوں گے اور یہ سوال بطور سرزنش اور ڈانٹ کے ہوگا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کس کام میں لگایا ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ دیا تھا اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے کاموں میں لگانے کی بجائے دنیا میں منہمک رہے، اللہ کی یاد سے اور آخرت سے غافل ہوگئے۔ قال صاحب الروح قدروی عن ابن عباس انہ صرح بان الخطاب فی لترون الجحیم للمشرکین وحملوا الرؤیة علی رویة الدخول وحملوا السوال ھنا علی سوال التقریع والتوبیخ لما انھم لم یشکروا ذلک بالایمان بہ عزوجل۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ابن آدم کو قیامت کے دن اس حال میں لایا جائے گا گویا کہ وہ بھیڑ کا بچہ ہے (یعنی ذلت کی حالت میں لایا جائے گا) اور اسے اللہ تعالیٰ شانہ کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اللہ شانہ کا سوال ہوگا کہ میں نے تجھے نعمتیں دی تھیں اور تجھ پر انعام کیا تھا سو تو نے کیا کیا ؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب میں نے مال جمع کیا اور خوب بڑھایا اور اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا جو پہلے تھا سو مجھے واپس لوٹا دیجئے میں سارا مال آپ کے پاس لے آتا ہوں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہوگا کہ تو مجھے وہ دکھا جو تو نے پہلے بھیجا تھا، ابن آدم پھر وہی بات کہے گا کہ میں نے مال جمع کیا خوب بڑھایا اور اس سے خوب زیادہ چھوڑ کر آیا جتنا پہلے تھا آپ مجھے واپس لوٹا دیجئے سارا مال لے کر آپ کے پاس واپس آجاتا ہوں (نتیجہ یہ ہوگا) اس شخص نے ذرا سی خیر بھی آگے نہ بھیجی ہوگی، لہٰذا اسے دوزخ کی طرف روانہ کردیا جائے گا۔ (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ صفحہ 433) گو بظاہر متبادر یہی ہے کہ یہ خطاب ﴿ ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ ﴾ بھی انہی لوگوں کو ہے جو شروع سورت سے مخاطب ہیں لیکن عمومی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اہل ایمان سے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا سوال ہوگا، متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن انسان کے قدم (حساب کی جگہ سے) نہیں ہٹیں گے، جب تک اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کرلیا جائے۔ (1) عمر کو کہاں فنا کیا۔ (2) جوانی کو کن کاموں میں ضائع کیا۔ (3) مال کہاں سے کمایا۔ (4) اور کہاں خرچ کیا۔ (5) علم پر کیا عمل کیا۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بندہ سے نعمتوں کے بارے میں جو سب سے پہلا سوال کیا جائے گا، وہ یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ فرمائیں گے کیا ہم نے تیرے جسم کو تندرست نہیں رکھا تھا، کیا ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ؟ (روای الترمذی فی تفسیر سورة التکاثر) رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا دھیان رکھتے تھے اور اپنے صحابہ کرام ؓ کو بھی اس طرف متوجہ فرماتے تھے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کو ہمراہ لے کر ایک انصاری صحابی کے گھر تشریف لے گئے انہوں نے کھجوروں کا خوشہ پیش کیا جن میں تین قسم کی کھجوریں تھیں، تر کھجوریں بھی اور خشک بھی اور کچی پکی کے درمیان بھی۔ صاحب خانہ انصاری نے ایک بکری بھی ذبح کی آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھجوریں کھائیں اور کھانا کھایا اور پانی پیا جب سیر ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، قیامت کے دن اس نعمت کے بارے میں تم سے ضرور سوال کیا جائے گا (کہ نعمت کا کیا حق ادا کیا اور اس سے جو قوت حاصل ہوئی اس کو کس کام میں لگایا شکر ادا کیا یا نہیں ؟ ) تم کو بھوک نے گھروں سے نکالا، ابھی تم واپس نہیں لوٹے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ نعمت عطا فرما دی۔ (رواہ مسلم) ایک حدیث میں اسی طرح کا قصہ مروی ہے کہ آپ اپنے دونوں ساتھیوں یعنی حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے ساتھ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، انہوں نے کھجوروں کا ایک خوشہ پیش کیا آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے اس میں سے کھایا پھر ٹھنڈا پانی طلب فرمایا پانی پی کر آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تم سے اس نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے کھجوروں کا خوشہ ہاتھ میں لے کر زمین پر مارا جس سے کھجوریں بکھر گئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا قیامت کے دن ہم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ہر نعمت کے بارے میں سوال ہوگا۔ سوائے تین چیزوں کے (1) اتنا چھوٹا سا کپڑے کا ٹکڑا جس سے آدمی اپنی شرم کی جگہ کو لپیٹ لے۔ (2) (روٹی کا) ٹکڑا جس سے اپنی بھوک کو دفع کر دے۔ (3) اتنا چھوٹا سا گھر جس میں گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے بتکلف داخل ہو سکے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 369، از احمد و بیہقی فی شعب الایمان) حضرت عثمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے لیے تین چیزوں کے سوا کسی چیز میں حق نہیں ہے (وہ تین چیزیں یہ ہیں) (1) رہنے کا گھر۔ (2) اتنا کپڑا جس سے اپنے شرم کی جگہ چھپالے۔ (3) روکھی روٹی بغیر سالن کے اور اس کے ساتھ پانی۔ (رواہ الترمذی فی ابواب الزھد) حضرت عبداللہ بن شخیر نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ ﴿ اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ﴾ پڑھ رہے تھے اور یوں فرما رہے تھے کہ انسان کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال (انسان تو سمجھ لے کہ تیرا کون سا مال ہے ؟ ) تیرا مال بس وہ ہے جو تو نے کھالیا اور فنا کردیا یا وہ ہے جو تو نے پہن لیا اور بوسیدہ کردیا۔ یا وہ ہے جو صدقہ دے دیا اور پہلے سے آگے بھیج دیا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔ اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ ان تینوں اموال کے علاوہ جو کچھ ہے اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 440) سنن ترمذی میں ہے کہ جب آیت کریمہ ﴿ ثُمَّ لَتُسْـَٔلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ (رح) 008﴾ نازل ہوئی تو حضرت زبیر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم سے کون سی نعمت کا سوال ہوگا ہم تو کھجور اور پانی پر گزارہ کرتے ہیں، آپ نے فرمایا عنقریب نعمتیں مل جائیں گے۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز انسان کے تین دفتر ہوں گے۔ ایک دفتر میں اس کے نیک عمل لکھے ہوں گے دوسرے دفتر میں اس کے گناہ درج ہوں گے، اور ایک دفتر میں اللہ کی وہ نعتیں درج ہوں گی جو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں دی گئی تھیں۔ اللہ عزوجل سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائیں گے کہ اپنی قیمت اس کے نیک اعمال میں سے لے لے۔ چناچہ وہ نعمت اس کے تمام اعمال کو اپنی قیمت لگا لے گی اور اس کے بعد عرض کرے گی کہ (اے رب ! ) آپ کی عزت کی قسم (ابھی) میں نے پوری قیمت وصول نہیں کی ہے، اب اس کے بعد گناہ باقی رہے اور نعمتیں بھی باقی رہیں (جن کی قیمت ادا نہیں ہوئی ہے) رہے نیک عمل سو وہ سب ختم ہوچکے ہوں گے، کیونکہ سب سے چھوٹی نعمت اپنی قیمت میں تمام نیک اعمال کو لگا چکی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ پر رحم کرنا چاہیں گے (یعنی مغفرت فرما کر جنت عطا فرمانا چاہیں گے) تو فرمائیں گے کہ اے میرے بندے میں نے تیری نیکیوں میں اضافہ کردیا اور تیرے گناہوں سے درگزر کیا۔ راوی کہتے ہیں غالباً آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر خدائے پاک کا ارشاد گرامی نقل فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ میں نے تجھے اپنی نعمتیں (یوں ہی بغیر عوض کے) بخش دیں۔ (الترغیب والترہیب صفحہ 397 ج 4) اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی عنایت فرمایا ہے بغیر کسی استحقاق کے دیا ہے۔ اس کو یہ حق ہے کہ اپنی نعمت کے بارے میں سوال کرے اور مواخذہ کرے کہ تم میری نعمتوں میں رہے ہو، بولو ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ اور میری عبادت میں کس قدر لگے ؟ اور ان نعمتوں کے استعمال کے عوض کیا لے کر آئے ؟ یہ سوال بڑا کٹھن ہوگا، مبارک ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکریہ میں عمل صالح کرتے رہتے ہیں اور آخرت کی پوچھ سے لرزتے اور کانپتے ہیں، برخلاف ان کے وہ بدنصیب ہیں جو اللہ کی نعمتوں میں پلتے بڑھتے ہیں اور نعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف ان کو ذرا دھیان نہیں اور اس کے سامنے جھکنے کا ذرا خیال نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں ہیں، قرآن مجید میں ارشاد ہے ﴿ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ﴾ پھر ساتھ ہی یوں فرمایا ﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ (رح) 0034﴾ (اور اگر اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو شمار نہیں کرسکتے، بلاشبہ انسان بڑا ظالم بڑا ناشکرا ہے) ۔ بلاشبہ یہ انسان کی بڑی نادانی ہے کہ مخلوق کے ذرا سے احسان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے اور جس سے کچھ ملتا ہے اس سے دبتا ہے اور اس کے سامنے با ادب کھڑا ہوتا ہے حالانکہ یہ دینے والے مفت نہیں دیتے بلکہ کسی کام کے عوض یا آئندہ کوئی کام لینے کی امید میں دیتے دلاتے ہیں خداوند کریم خالق ومالک ہے، غنی و مغنی ہے وہ بغیر کسی عوض کے عنایت فرماتا ہے لیکن اس کے احکام پر چلنے اور سر بسجود ہونے سے انسان گریز کرتا ہے، یہ بڑی بد بختی ہے، اللہ کی نعمتوں کو کوئی کہاں تک شمار کرے گا جو نعمت ہے ہر ایک کا محتاج ہے ایک بدن کی سلامتی اور تندرستی ہی کو لے لیجئے، کیسی بڑی نعمت ہے جب پیاس لگتی ہے تو غٹا غٹ ٹھنڈا پانی پی جاتے ہیں، یہ پانی کس نے پیدا کیا ہے ؟ اس پیدا کرنے والے کے احکام پر چلنے اور شکر گزار بندہ بننے کی بھی فکر ہے یا نہیں ؟ یہ غور کرنے کی بات ہے۔ فائدہ : حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ روزانہ ایک ہزار آیت پڑھ لو، صحابہ نے عرض کیا روزانہ ایک ہزار آیت پڑھنے کی کسے طاقت ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ﴿اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ﴾ پڑھ لو (اس کے پڑھنے سے ہزار آیت پڑھنے کا ثواب ملے گا) ۔ (مشکوۃ صفحہ 160 از شعب الایمان)
Top