Tadabbur-e-Quran - At-Takaathur : 8
ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر لَتُسْئَلُنَّ : تم پوچھے جاؤگے يَوْمَئِذٍ : اس دن عَنِ النَّعِيْمِ : نعمتوں کی بابت
، پھر تم سے اس دن نعمتوں کے باب میں پرستش ہونی ہے تو
نعمتوں کا حق: ’ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ‘۔ یہ بات بھی ’لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ‘ کے تحت ہی ہے، یعنی اگر تمہیں اس بات کا علم ہوتا کہ اس دن تم سے تمام نعمتوں کی پرسش ہونی ہے۔ پرسش سے مراد، ظاہر ہے کہ، وہ سزا ہے جو ان کی ناشکری، ناقدری اور ان کے سوء استعمال کے نتیجہ میں بھگتنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جتنی قوتیں و صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور جو وسائل و ذرائع بھی بخشے ہیں وہ سب ’نعیم‘ میں داخل ہیں۔ ان کا فطری حق یہ ہے کہ ان کے لیے خدا کا شکرگزار رہا جائے اور ان کو اس کے مقرر کردہ حدود کے اندر ان کاموں میں استعمال کیا جائے جن کے لیے وہ عطا ہوئے ہیں۔ کوئی نعمت اگر ضائع کی گئی یا وہ خالق کی پسند کے خلاف استعمال ہوئی تو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا دے۔ انسان کے کان، آنکھ، دل، دماغ اور تمام اعضاء و جوارح نعمت ہیں، اسی طرح اس کو جو ظاہری و باطنی قوتیں اور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں وہ بھی نعمت ہیں، علیٰ ہذا القیاس اس دنیا میں زندگی کے جو اسباب و وسائل اس کو عطا ہوئے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمت ہیں۔ ان کا فطری حق، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہی ہے کہ انسان ان کو برتے اور اپنے رب کا شکرگزار رہے۔ اس ناشکرگزاری کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ ان کے برتنے میں نہ خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود سے تجاوز کرے اور نہ ان میں سے کسی کے عشق میں اس طرح مبتلا ہو جائے کہ اسی کو معبود بنا بیٹھے اور خدا کو بھول جائے۔ جو لوگ اس طرح کے کسی تجاوز میں مبتلا ہوں گے وہ قیامت کے دن لازماً اس کی سزا بھگتیں گے۔ اس سورہ میں چونکہ تکاثر اموال کے فتنہ سے آگاہ فرمایا گیا ہے اس وجہ سے وہ یہاں خاص طور پر پیش نظر رہے۔ ہر صاحب مال سے یہ سوال ہو گا کہ اس نے اپنا مال کن راستوں سے حاصل کیا اور کن کاموں میں صرف کیا۔ جنھوں نے نہ اس کے حاصل کرنے میں حرام و حلال کی پروا کی اور نہ اس کے صرف کرنے میں اصل مالک کی مرضی پیش نظر رکھی بلکہ مال ہی کو انھوں نے معبود بنا لیا اور اسی کے حاصل کرنے میں ساری زندگی کھپا دی ان کو اس انجام سے سابقہ پیش آئے گا جو سورۂ ہمزہ میں بیان ہوا ہے: وَیْْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ ۵ الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَہُ ۵ یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہٗٓ أَخْلَدَہُ ۵ کَلَّا لَیُنبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ ۵ وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْحُطَمَۃُ ۵ نَارُ اللہِ الْمُوۡقَدَۃُ ۵ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْأَفْئِدَۃِ ۵ إِنَّہَا عَلَیْہِم مُّؤْصَدَۃٌ ۵ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ (الہمزہ ۱۰۴: ۱-۹) ’’ہلاکی ہے ہر اس اشارہ باز، عیب جو کے لیے جس نے مال سمیٹا اور اس کو گن گن کر رکھا۔ یہ گمان کرتے ہوئے کہ اس کے مال نے اس کو زندہ جاوید کر دیا۔ ہرگز نہیں وہ چُور چُور کر دینے والی میں پھینکا جائے گا۔ اور کیا سمجھے کہ چُور چُور کر دینے والی کیا ہے! خدا کی بھڑکتی آگ جو دلوں پر چڑھ جائے گی۔ وہ اس میں بند ہوں گے لمبے ستونوں میں جکڑے۔‘‘ آخر میں ’لو‘ کا جواب، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، محذوف ہے۔ شرط کا جواب ان مواقع میں حذف کر دیا جاتا ہے جہاں وہ اظہار کے بغیر واضح ہو۔ اس کی متعدد مثالیں اس کتاب میں گزر چکی ہیں۔ اس حذف سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ ساری بات محذوف مانی جا سکتی ہے جس کے لیے موقع کلام مقتضی ہو۔ اس میں یہ بلاغت بھی ہے کہ مخاطب کو گویا یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ خود ٹھنڈے دل سے اپنے رویہ کا جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ اگر یہ باتیں صحیح ہیں (اور ان کے صحیح ہونے سے اس کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے) تو اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے اور اس نے اب تک جو زندگی گزاری ہے وہ کتنی غلط، حقائق سے کتنی بعید اور انجام کے اعتبار سے کتنی ناعاقبت اندیشانہ اور لاابالیانہ زندگی گزاری ہے۔ یہاں اس حذف سے یہ سارا مضمون پیدا ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر تم ان بدیہی حقائق پر سنجیدگی سے غور کرتے تو اپنی قیمتی زندگی یوں برباد نہ کرتے۔ اب بھی اگر بھلائی چاہتے ہو تو عقل سے کام لو اور جس زندگی کے بدلے ابدی بادشاہی حاصل کر سکتے ہو اس کو اس دنیائے فانی کے حقیر خزف ریزوں کو جمع کر نے میں برباد نہ کرو۔
Top