Anwar-ul-Bayan - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان کی وجہ سے رنجیدہ ہوئے اور ان کی وجہ سے تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے آج کا دن مصیبت کا دن ہے
فرشتوں کا حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آنا، ان کی بد کار قوم کا ہلاک ہونا اور اہل ایمان کا نجات پانا اللہ تعالیٰ نے جو فرشتے لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کیلئے بھیجے تھے وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بشارت دے کر اور ان کے مکالمہ اور مجادلہ سے فارغ ہو کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے جو انسانی شکلوں میں تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو لڑکوں اور مردوں کے ساتھ بد فعلی کی عادت تھی ‘ وہ منع کرتے تھے تو باز نہ آتے تھے اور الٹا حضرت لوط (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو طعنہ دیتے تھے اور یوں کہتے تھے ان لوگوں کو بستی سے نکال دو یہ بڑے پاک باز بنتے ہیں (جیسا کہ سورة اعراف کے رکوع 10) میں گذر چکا ہے۔ فرشتے حسین اور خوبصورت مردوں کی صورت میں آئے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رنج ہوا اور تنگ دل ہوئے۔ کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ مہمانوں کے ساتھ حرکت بد کرنے کا ارادہ کریں گے جب وہ لوگ جلدی جلدی دوڑے ہوئے آئے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان سے کہا یہ دیکھو یہ میری بیٹیاں ہیں یعنی وہ عورتیں جو میری امت میں ہیں یہ تمہارے لئے بہتر ہیں ان سے نکاح کرو اور اپنا کام چلاؤ ‘ ان پاکیزہ عورتیں کو چھوڑ کر ایسے کام کا ارادہ نہ کرو جو اللہ کی ناراضی لانے والا کام ہے ‘ پھر یہ بھی دیکھ لو کہ یہ میرے مہمان ہیں تم ان سے اپنے مطلب برآری کا ارادہ کر کے مجھے ان میں رسوانہ کرو کیا تم سبھی کی عقلوں پر پتھر پڑگئے کیا تم میں کوئی اچھا آدمی صحیح رائے والا نہیں ہے ؟ ان کی قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی مطلب اور سروکار نہیں ہمارا جو مطلب ہے وہ تم جانتے ہو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے جب ان کی ضد دیکھی اور ان کی طرف سے نصیحت قبول کرنے سے ناامید ہوگئے تو کہنے لگے کہ کاش تمہارے مقابلہ میں مجھے قوت حاصل ہوتی یا میں کسی مضبوط پائے کی طرف ٹھکانہ پکڑ لیتا یعنی میں کسی ایسی قوم کا فرد ہوتا جو کنبہ اور قبیلہ اور جتھہ والی ہوتی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد اللہ نے جو بھی کوئی نبی بھیجاوہ عزت اور زور آور اور عزت والی قوم میں سے تھا۔ (در منثور ص 343 ج 3) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ لوط پر رحمت فرمائے وہ مضبوط پائے کی طرف ٹھکانہ پکڑ رہے تھے۔ (رواہ البخاری ص 478 ج 1) فرشتوں نے جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی دیکھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ بیشک ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تمہارا کچھ نہ کرسکیں گے۔ آپ تک ان کی رسائی ہرگز نہ ہوگی اور یہ تو خود ہلاک ہونے والے ہیں ہم ان کی ہلاکت کے لئے بھیجے گئے ہیں اور چونکہ اہل ایمان کو محفوظ رکھنا ( اور اہل ایمان صرف حضرت لوط کے گھر والے ہی تھے) ضروری ہے اس لئے آپ رات کے وقت میں انہیں لے کر باہر چلے جائیے اور برابر چلتے جائیں تم میں سے کوئی شخص مڑ کر نہ دیکھے مگر آپ کی جو بیوی ہے وہ ساتھ نہ جائے گی (وہ کافرہ تھی) اس پر بھی وہی عذاب آنے والا ہے جو بستی کے دوسرے لوگوں پر آئے گا اور یہ عذاب صبح کے وقت میں نازل ہوگا ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) چونکہ بہت ہی زیادہ تنگ آ چکے تھے اس لئے انہوں نے صبح تک مہلت دینا گوارانہ کیا اور فرمایا کہ ابھی عذاب آجائے (کما ذکر فی الدر المنثور عن ابن عباس ؓ فرشتوں نے کہا (اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ ) (کیا صبح قریب نہیں) جب صبح ہوئی تو اللہ کا حکم آگیا جو فرشتے عذاب کے لئے بھیجے گئے تھے انہوں نے ان بستیوں کا تختہ اٹھا کر پلٹ دیا۔ نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی زمین نیچے ہوگئی وہ سب لوگ اس میں دب کر مرگئے اور اللہ تعالیٰ نے اوپر سے پتھر بھی برسا دئیے جو کنکر کے پتھر تھے وہ لگاتار برس رہے تھے اور ان پر نشان بھی لگے ہوئے تھے۔ بعض علمائے تفسیر نے فرمایا ہر پتھر جس شخص پر پڑتا تھا اس پر اس کا نام لکھا ہوا تھا اس کو مُسَوَّمَۃً یعنی نشان زدہ فرمایا۔ (کما ذکرہ فی معالم التنزیل وفیہ اقوال اخر) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اس علاقہ میں موجود تھے ان پر زمین الٹنے کا عذاب آیا اور جو لوگ ادھر ادھر نکلے ہوئے تھے ان پر پتھر برسے اور وہ پتھروں کی بارش سے ہلاک ہوگئے۔ حضرت مجاہد تابعی (رح) سے کسی نے پوچھا کیا قوم لوط میں سے کوئی رہ گیا تھا انہوں نے جواب دیا کوئی باقی نہ رہا تھا ہاں ایک شخص زندہ بچ گیا تھا جو مکہ معظمہ میں تجارت کے لیے گیا ہوا تھا وہ چالیس دن کے بعد حرم سے نکلا تو اس کو بھی پتھر لگ گیا جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا۔ صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھَا ای علی شذاذھا ومسافریھا یعنی ان میں سے جو لوگ مسافر تھے ادھر ادھر نکلے ہوئے تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش بھیج دی جس سے وہ ہلاک ہوگئے پھر لکھا ہے وقیل بعد ما قلبھا امطر علیھا (یعنی جب تختہ الٹ دیا تو اوپر سے پتھر برسا دئیے گئے) یہ قول صحیح ہے جو قرآن کے سیاق کے مطابق ہے۔ اور یہ اس کے معارض نہیں کہ جو لوگ ادھر ادھر گئے ہوئے تھے ان پر بھی پتھر آئے ہوں اور وہ پتھروں کے ذریعہ ہلاک کئے گئے ہوں ‘ ان لوگوں پر جو پتھر آئے تھے ان کے بارے میں (مِنْ سِجِّیْلٍ ) فرمایا ہے اس کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ یہ لفظ معرب ہے سنگ اور گل سے مرکب ہے فارس میں سنگ پتھر کو اور گل مٹی کو کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ پتھر ایسے تھے جو مٹی سے بنائے ہوئے تھے اسی لئے اس کا ترجمہ کنکر کیا گیا ہے حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے بیان القرآن میں فرمایا ہے کہ اس سے جھانوہ مراد ہے جو پک کر مثل پتھر کے ہوجاتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جن بستیوں کی طرف مبعوث ہوئے وہ چند بستیاں تھیں جن کے نام مفسرین نے میعہ صعرہ عصرہ، دوما ‘ سدوم بتائے ہیں ان کے ناموں کے بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں ان میں سب سے بڑی بستی سدوم تھی حضرت لوط (علیہ السلام) اسی میں رہتے تھے ان کی قوم کے اعمال بد کی وجہ سے ان بستیوں پر عذاب آیا۔ یہ بستیاں نہرار دن کے قریب تھیں۔ ان بستیوں کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان کی جگہ بحرمیت جاری کردیا گیا جو آج بھی موجود ہے یہ پانی کہیں دوسری جگہ سے نہیں آتا صرف ان بستیوں کے حدود میں رہتا ہے۔ یہ پانی بدبودار ہے جس سے انسانوں کو یا جانوروں کو یا کھیتوں کو کسی قسم کا انتفاع نہیں ہوتا۔ سورة حجر میں زمین کا تختہ الٹنے کے تذکرہ سے پہلے یہ بھی فرمایا (فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُشْرِقِیْنَ ) (سورج نکلتے نکلتے انہیں چیخ نے پکڑ لیا) اس سے معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پر تینوں طرح کا عذاب آیا ‘ چیخ نے بھی پکڑا اور ان کی زمین کا تختہ بھی الٹ دیا گیا اور ان پر پتھر بھی برسائے گئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کافرہ تھی وہ بھی ہلاک کردی گئی بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے ساتھ نکلی ہی نہ تھی جب پوری قوم پر عذاب آیا تو وہ بھی انہی میں ہلاک ہوگئی اور بعض حضرات نے فرمایا ساتھ تو نکلی تھی لیکن جب اس نے عذاب آنے کی آہٹ سنی تو پیچھے مڑ کر دیکھنے لگی اور اپنی قوم کی ہلاکت کا یقین کرتے ہوئے یوں کہا ” ہائے میری قوم “ اس وقت اسے ایک پتھر آکر لگا جس سے وہ ہلاک ہوگئی حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا قصہ ہم نے تفصیل سے سورة انعام (ع 10) کی تفصیل کے ذیل میں بیان کیا ہے وہاں بھی ملاحظہ فرمالیں (انوار البیان جلد اول) وہاں یہ بھی بیان کردیا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم والا عمل کرنے والوں کی امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ کے علماء نے کیا سزا بتائی ہے ‘ قصہ کے ختم ہونے پر فرمایا (وَمَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ ) (یہ بستیاں ظالموں سے دور نہیں ہیں) یعنی جو لوگ ایمان نہیں رکھتے کفر پر مصر ہیں ان لوگوں کو حضرت لوط والے واقعہ سے عبرت لینا چاہئے یہ بستیاں ان سے دور نہیں ہیں سورة حجر میں فرمایا (وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ ) (یہ بستیاں ایک آباد سٹرک پر ہیں) عرب کے لوگ جب تجارت کے لئے شام کو جاتے تھے تو ان تباہ بستیوں کے پاس سے گزرتے تھے ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا لازم تھا ‘ سورة صٰفّٰت میں فرمایا (وَاِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْھِمْ مُّصْبِحِیْنَ وَبِالَّیْلِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ) (اور تم ان پر صبح کے وقت اور رات کے وقت گزرا کرتے ہو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے) ۔
Top