Baseerat-e-Quran - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ رنجیدہ اور دل تنگ ہوا اور اس نے کہا کہ یہ دن بہت بھاری ہے
لغات القرآن آیت نمبر 77 تا 83 سیء (رنجیدہ ہوا) ضاق (تنگ ہوگیا) یوم عصیب (بھاری دن۔ مشکل وقت ) یھرعون (وہ دوڑتے ہیں) السیئات (سیئۃ ) برائیاں بناتی (میری بیٹیاں) اطھر (زیادہ پاک باز، صاف ستھری) لاتخزون (تمجھے مجھے رسوا نہ کرو) ضیفی (میرے مہمان) رجل (مرد) رشید (زیادہ بہتر، زیادہ سمجھ دار) اوی (لینے والا) رکن شدید (مضبوط سہارا) لن یصلوا (وہ ہرگز نہ پہنچیں گے) اسر (رات کو نکل جا) قطع (حصہ) اللیل (رات) لایلتفت (توجہ نہ کرنا) امراتک (تیری بیوی) عالیھا (اس کے اوپر کو) سافلھا (اس کے نیچے) امطرنا (ہم نے برسایا) سجیل (پکی اینٹ) منضود (پتھر) مسومۃ (نام لکھا ہوا، متعین و مقرر) تشریح : آیت نمبر 77 تا 83 گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے حضرت ابراہیم کو حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوش خبری دے کر حضرت لوط کے پاس چند نوجوان اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں پہنچے۔ اب اس کی تفصیل ارشاد فرمائی جا رہی ہے۔ حضرت لوط ان فرشتوں کو پہچان نہ سکے اور عام نوجوان سجھ کر اس تصور سے پریشان ہوگئے کہ ان کی قوم ان لڑکوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی قوم کے مزاج سے اچھی طرح واقف تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوط کی بیوی جس نے ایمان قبول نہیں کیا تھا اور اپنے کفر پر قائم تھی اس نے قوم لوط کو اس بات کی اطلاع دیدی تھی کہ حضرت لوط کے پاس چند خوبصورت نوجوان لڑکے بطور مہمان آئے ہوئے ہیں۔ چناچہ پوری قوم کے سارے بدکار لوگ حضرت لوط کے گھر پر ٹوٹ پڑے اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہا ن لڑکوں کو ان کے حوالے کردیا جائے۔ حضرت لوط اس تصور سے سخت پریشان ہوگئے کہ یہ لوگ میری بےعزتی کرنے سے باز نہیں رہیں گے اور زبردستی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ حضرت لوط نے ان کو وعظ و نصیحتک رتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرمائیں کہ دیکھو اپنی بدکرداریوں کو چھوڑ کر نیک اور بہتر راستہ اختیار کرو، تم جس بد عملی میں راحت تلاش کرنے کی کوشش کر رہے وہ وہ تمہیں برباد کر کے رکھ دے گی۔ کیا قوم کی بیٹیاں موجود نہیں ہیں جن سے نکاح کر کے تم پاکیزہ زندگی گذار سکتے ہو۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی سمجھ دار آدمی نہیں ہے۔ حضرت لوط کے وعظ و نصیحت کو سن کر کہنے لگے کہ لوط تم جانتے ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں اور عورتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تمہیں معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اب تم ان مہمانوں کو ہمارے حوالے کر دو اور بس۔ حضرت لوط پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور وہ قوم کی بےحسی پر تڑپ کر رہ گئے اور کہہ اٹھے کہ اگر میرے اندر طاقت و قوت ہوتی یا کوئی مضبوط پناہ گاہ ہوتی جہاں میں پناہ لے لیتا اور یہ رسوائی کا دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ قوم کی بدکرداری اور بےحسی اور حضرت لوط کی پریشانی دیکھ کر ان فرشتوں نے کہا کہ اے لوط آپ پریشان نہ ہوں ہم اللہ کے فرشتے ہیں جو اس بدکردار قوم کو تباہ کرنے کیلئے بھیجے گئے ہیں۔ آپ تک یہ لوگ نہ پہنچ سکیں گے۔ آپ رات کے کسی حصے میں سوائے اپنی بیوی کے اپنے اہل خانہ اور مومنین کو لے کر نکل جائیے اور پیچھے پلٹ کر نہ دیکھیے کیونکہ اس قوم پر عذاب کا فیصلہ کرلیا گیا ہے اور اب یہ قوم اس عذاب سے بچ نہ سکے گی۔ حضرت لوط جو اپنی قوم کے انتہائی مخلص تھے یقینا یہ سن کر اور بھی پریشان ہوگئے ہوں گے۔ پھر بھی قوم کو سمجھاتے رہے لیکن وہ بدقسمت قوم اپنے برے انجام سے بیخبر اپنی ناجائز خواہشات اور تمناؤں میں الجھی رہی ۔ رتا کے آخری حصے میں حضرت لوط اور ان کے اہل ایمان گھر والے اور مومنین روانہ ہوگئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آگیا۔ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے اور ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور وہ پوری قوم اپنی بد عملی کے نتائج کا شکار ہوگئی۔ دراصل غیر فطری اعمال اللہ کو اس قدر ناپسند ہیں کہ جو قوم اور اس کے افراد اس خرابی اور گندی میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو تہس نہس کر کے رکھ دیا جاتا ہے اور ایسی قوم اللہ کے فیصلے سے بچ نہیں سکتی۔ ہم اپنے اس دور میں دیکھ رہے ہیں کہ بعض ترقی یافتہ قومیں بڑی تیزی سے اس ” عمل بد “ کو قانونی تحفظ دے رہی ہیں۔ قانونی تحفظات کی وجہ سے عجب نہیں کہ ان کے لئے اللہ کا فیصلہ آجائے۔ امریکہ، کینیڈا، اور یورپ میں جس طرح اس فعل بد کو قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پوری قوم اس مرض میں مبتلا ہو چیک ہے اسی لئے قانونی تحفظ کی ضرورت پڑ رہی ہے دوسرے یہ کہ اس مرض کے عام ہونے سے ایسی ایسی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں جو ناقابل علاج ہیں۔ چناچہ ایڈز جیسی بیماری بھی اس فعل بد کا نتیجہ ہے ممکن ہے قانون کا تحفظ دینے والے اسی عذاب کا شکار ہوجائیں یا ان کی بستیوں پر سمندر اس طرح چڑھ دوڑے گا کہ وہ اپنی عمارتوں اور شہروں کو اس عذاب سے نہ بچا سکیں گے۔ ہر بحال میری نگاہیں تو یہ دیکھ رہی ہیں کہ اب ان قوموں کے بچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس دن اللہ کا یہ عذاب آجائے گا اس دن ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس سے نجات حاصل نہ کرسکیں گی۔ اب بھی توبہ کا وقت ہے۔ وقت نکل گیا تو پھر ہر چیز الٹ کر رہ جائے گی۔
Top