Anwar-ul-Bayan - An-Nahl : 116
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ
وَ : اور لَا تَقُوْلُوْا : تم نہ کہو لِمَا : وہ جو تَصِفُ : بیان کرتی ہیں اَلْسِنَتُكُمُ : تمہاری زبانیں الْكَذِبَ : جھوٹ ھٰذَا : یہ حَلٰلٌ : حلال وَّھٰذَا : اور یہ حَرَامٌ : حرام لِّتَفْتَرُوْا : کہ بہتان باندھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : بہتان باندھتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ لَا يُفْلِحُوْنَ : فلاح نہ پائیں گے
'' اور جن چیزوں کے بارے میں تمہاری زبانیں جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں ان کے بارے میں یوں نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ تم اللہ پر جھوٹا افتراء کرو، بلاشبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے
تحلیل اور تحریم کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے مشرکین مکہ کا طریقہ تھا کہ انہوں نے اپنے پاس سے اشیاء کی حلت و حرمت تجویز کر رکھی تھی۔ جانوروں کی تحلیل و تحریم کے بارے میں بہت سی باتیں ان کی خود تراشیدہ تھیں جس کا ذکر سورة انعام کے رکوع نمبر 16 میں اور سورة مائدہ کے رکوع نمبر 14 میں بیان فرمایا ہے یہاں اس پر تنبیہ فرمائی کہ جن چیزوں کو تم نے خود سے حلال قرار دے رکھا ہے ان کے بارے میں اپنے پاس سے حلال و حرام مت کہو، حلال و حرام قرار دینے کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اس کے اختیار کو اپنے لیے استعمال کرو گے تو یہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا ہوگا کسی شرعی دلیل ہی سے اللہ کی پیدا فرمودہ اشیاء کو حلال یا حرام کہا جاسکتا ہے اپنی طرف سے خود تجویز نہیں کرسکتے۔ جب شرعی دلیل نہیں ہے تو اپنی طرف سے حرام و حلال تجویز کرنا حرام ہے، اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے والے کامیاب نہ ہوں گے دنیا و آخرت میں سزا کے مستحق ہوں گے، یہ جو دنیاوی زندگی گزار رہے ہیں جس میں طرح طرح سے اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور ان میں بعض نافرمانیوں کی وجہ سے جو کوئی لذت یا دنیاوی نفع پہنچ جاتا ہے یہ چند روزہ ہے تھوڑا سا عیش ہے ذرا سی زندگی ہے اس کے بعد آخرت میں ان لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ پر تہمت باندھتے ہیں اس کی پیدا کردہ چیزوں کو اپنی طرف سے حلال و حرام قرار دیتے ہیں۔
Top