Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 116
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ
وَ : اور لَا تَقُوْلُوْا : تم نہ کہو لِمَا : وہ جو تَصِفُ : بیان کرتی ہیں اَلْسِنَتُكُمُ : تمہاری زبانیں الْكَذِبَ : جھوٹ ھٰذَا : یہ حَلٰلٌ : حلال وَّھٰذَا : اور یہ حَرَامٌ : حرام لِّتَفْتَرُوْا : کہ بہتان باندھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : بہتان باندھتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ لَا يُفْلِحُوْنَ : فلاح نہ پائیں گے
اور مت کہو تم لوگ ان چیزوں کے بارے میں جن کو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ یہ حلال اور یہ حرام، تاکہ اس طرح تم افراء باندھو اللہ پر جھوٹا، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹا افتراء باندھتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتے،1
251۔ تحلیل وتحریم اللہ تعالیٰ ہی کی صفت وشان :۔ سو اس سے تصریح فرما دی گئی کہ خود اور اپنے طور پر کسی چیز کو حلال اور حرام مت قرار دو ۔ اس لئے کہ تحلیل وتحریم اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ خالق ومالک وہی وحدہ لاشریک ہے۔ پس جو کئی از خود کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہراتا ہے وہ دراصل اللہ پاک کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے کہ یہ تحلیل وتحریم اللہ کی طرف سے ہے۔ جبکہ واقعتا ایسے ہے نہیں۔ اس لئے یہ ظلم اور افتراء علی اللہ ہے یا ایسا شخص درپردہ اس کا دعوی کرتا ہے کہ وہ بھی تحلیل وتحریم کا اختیار رکھتا ہے جو کہ دراصل اپنی خدائی کا دعوی کرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو دونوں صورتوں میں یہ اللہ تعالیٰ پر افتراء قرار پاتا ہے۔ اور افتراء علی اللہ ایک بڑا ہی سنگین جرم اور ہولناک گناہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بغیر کسی سند کے محض اپنے مزعومات اور مفروضات کی بناء پر از خود کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 252۔ افتراء پرداز کبھی فلاح نہیں پاسکتے :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ پر افتراء باندھنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) کیونکہ دنیا میں جو عارضی اور وقتی نوعیت کے نشے اور مزے ان کو حاصل ہوتے رہتے ہیں وہ سب فانی اور آخرت کے مقابلے میں بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ (نمتعم قلیلا ثم نضطرہم الی عذاب غلیظ) (لقمن : 24) اور جب دنیاوی زندگی کی یہ مختصر اور محدود فرصت غفلت و بغاوت اور لاپرواہی میں گزار دی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ تو پھر آخرت میں ایسوں کیلئے درد ناک عذاب کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اور اس طور پر کہ پھر ایسے لوگ اس سے کبھی نکلنے بھی نہ پائیں گے۔ سو ایسوں سے بڑھ کر بدبخت اور کون ہوسکتا ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top