Anwar-ul-Bayan - Al-Hijr : 66
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
'' اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ قائم کریں گے پھر ان لوگوں کو اجازت نہ دی جائے گی جنہوں نے کفر کیا، اور نہ ان سے اس بات کی فرمائش کی جائے گی کہ اللہ کو راضی کرلیں
قیامت کے دن کے چند مناظر، کافروں اور مشرکوں کے لیے عذاب کی وعید ان آیات میں روز قیامت کے بعض مناظر ذکر فرمائے ہیں اول تو یہ فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت میں سے ہم ایک گواہ قائم کریں گے یہ گواہ ان کا پیغمبر ہوگا جو ان کے کفر کے بارے میں گواہی دے گا، جب کفار قیامت کے دن جمع ہوں گے تو انہیں کسی قسم کے عذر اور معذرت کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ان سے یوں کہا جائے گا کہ اللہ کو راضی کرلو اور راضی کرکے عذاب سے چھوٹ جاؤ کیونکہ راضی کرنے کا موقع صرف دنیا ہی میں تھا وہاں کفر سے توبہ کرلیتے تو اللہ تعالیٰ شانہٗ راضی ہوجاتا لیکن جب کفر پر موت آگئی تو اب اپنے رب کو راضی کرنے کا کوئی راستہ نہ رہا اب تو عذاب میں جانا ہی ہوگا۔ کفر کی سزا میں جب انہیں عذاب نظر آئے گا اور عذاب میں داخل ہونے لگیں گے تو خلاصی کا یا تخفیف عذاب کا یا مہلت کا کوئی راستہ نہ پائیں گے اس موقع پر کفار اور مشرکین اپنے شرکاء یعنی اپنے معبودوں کے بارے میں کہیں گے کہ اے ہمارے رب یہ ہمارے شرکاء ہیں یعنی یہ وہ معبود ہیں جنہیں ہم نے آپ کی عبادت میں شریک کرلیا تھا ان کے شرکاء یعنی باطل معبودان کی طرف متوجہ ہو کر کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو یہ بات کہہ کر ان سے اپنی بےتعلقی ظاہر کردیں گے۔ علامہ قرطبی ؓ اپنی تفسیر ص 163 ج 10 میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بتوں کو بولنے کی قوت عطا فرمائے گا اور وہ یوں کہیں گے کہ تم نے جو ہمارے بارے میں معبود ہونے کا عقیدہ بنایا اس میں تم جھوٹے ہو ہم معبود نہیں تھے ہم تو معبود حقیقی کی مخلوق تھے اور عاجز محض تھے ہم نے تمہیں اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا تھا، کافروں کو رسوا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ بتوں کو زبان دے دے گا جب یہ کفار عذاب دیکھیں گے اور عذاب سے بچنے کا کوئی راستہ نہ پائیں گے تو فرمانبرداری کی باتیں کرنے لگیں گے اور یوں کہیں گے کہ اے رب جو کچھ حکم ہو ہم کرنے کے لیے تیار ہیں ہمیں عذاب سے محفوظ کردیا جائے، دنیا میں جب انہیں توحید کی دعوت دی جاتی تھی تو کفر و شرک کی باتیں کرتے تھے اور انہیں ضد تھی کہ حق قبول نہ کریں گے، حضرات انبیائے کرام (علیہ السلام) کو بھی جھٹلاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جن سے وہ پاک ہے، ساری باتیں اس دن گم ہوجائیں گی اور توبہ کا بھی موقع نہ دیا جائے گا قبول ایمان اور توبہ کا موقع دنیا میں تھا جسے پیچھے چھوڑ آئے۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا وہ مبتلائے عذاب ہوں گے اور ان کے فساد پھیلانے کی وجہ سے ان کو عذاب دیا جائے گا ایک عذاب کفر پر دوسرا عذاب فساد کرنے پر قال صاحب الروح ای زدناھم عذابا فوق العذاب الذی یستحقونہ بکفرھم بسبب استمرارھم علی الافساد وھو الصدعن السبیل صاحب روح المعانی فرماتے ہیں یعنی اپنے کفر کی وجہ سے وہ جس عذاب کے مستحق تھے اس سے اوپر اور عذاب دیا فساد پر ان کے اصرار کی وجہ سے اور ان کا فساد راہ حق سے لوگوں کو روکنا ہے۔ (ص 212 ج 14) آخر میں فرمایا ہم ہر جماعت میں سے ایک گواہ قائم کریں گے جو انہیں میں سے ہوگا اور ان پر گواہی دے گا، یہ ہر امت کا نبی ہوگا اور نبی اکرم ﷺ کو بھی اپنی امت پر گواہ بنایا جائے گا، آپ ان کا تزکیہ فرمائیں گے، کہ میری امت گواہی دینے کے لائق ہے، شاہد عدل ہے (کما مر فی البقرۃ) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ھولاء سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) مراد ہیں وہ حضرات اپنی اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے اور آنحضرت ﷺ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بارے میں گواہی دیں گے کہ ان حضرات کی گواہی حق ہے۔
Top