Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 80
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا
وَقُلْ : اور کہیں رَّبِّ : اے میرے رب اَدْخِلْنِيْ : مجھے داخل کر مُدْخَلَ : داخل کرنا صِدْقٍ : سچا وَّاَخْرِجْنِيْ : اور مجھے نکال مُخْرَجَ : نکالنا صِدْقٍ : سچا وَّاجْعَلْ : اور عطا کر لِّيْ : میرے لیے مِنْ لَّدُنْكَ : اپنی طرف سے سُلْطٰنًا : غلبہ نَّصِيْرًا : مدد دینے والا
اور آپ یوں دعا کیجیے کہ اے رب مجھے ایسی جگہ میں داخل کیجیے جو خوبی کی جگہ ہو۔ اور مجھے خوبی کے ساتھ نکالیے اور میرے لیے اپنے پاس سے ایسا غلبہ عطا فرمائیے جس کے ساتھ مدد ہو
قرآن مومنین کے لیے شفاء ہے اور رحمت ہے، ظالموں کے نقصان ہی میں اضافہ کرتا ہے یہ پانچ آیات ہیں جن کا اوپر ترجمہ کیا گیا ہے۔ پہلی آیت سفر ہجرت کے بارے میں ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مکہ معظمہ میں مقیم تھے، پھر جب آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا اس وقت آیت کریمہ (وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ) آخر تک نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تلقین فرمائی کہ آپ یوں دعا کریں کہ مجھے بہترین داخل ہونے کی جگہ میں داخل فرمائیے اور میرا اپنے شہر سے نکلنا بھی میرے لیے اچھا بنا دیجیے (جس کا انجام مبارک ہو) اور میرے لیے اپنے پاس سے ایسا غلبہ دیجیے جس میں آپ کی مدد بھی ہو (رواہ الترمذی فی التفسیر) مدخل صدق سے جائے ہجرت اور مخرج صدق سے مکہ معظمہ مراد ہے مطلب یہ کہ مکہ معظمہ سے اطمینان کے ساتھ نکل جاؤں دشمن کوئی تکلیف نہ پہنچا سکے اور دارالہجرہ میں بھی خوبی کے ساتھ داخلہ ہوجائے اور پھر یہ داخلہ مبارک ہو جس کے بعد آپ کی طرف سے غلبہ بھی ہو اور نصرت بھی ہو۔ اللہ تعالیٰ شانہ نے یہ دعا تلقین فرمائی پھر اس کو قبول فرمایا۔ پھر چند سال کے بعد آپ مکہ معظمہ میں فتح، غلبہ اور نصرت الٰہی کے ساتھ داخل ہوگئے۔
Top