Anwar-ul-Bayan - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اس پر وارد نہ ہو۔ آپ کے رب کا یہ حکم لازمی ہے جس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے
تمام بنی آدم دوزخ پر وارد ہوں گے، اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو نجات کی نعمت سے نوازے گا ان دونوں آیتوں میں یہ ارشاد فرمایا کہ بنی آدم میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس کا دوزخ پر ورود نہ ہو عبور تو سبھی کا ہوگا لیکن متقی اس سے نجات پاجائیں گے اور ظالم لوگ اسی میں گھٹنوں کے بل گرجائیں گے اور پھر اسی میں رہیں گے۔ وارد سے کیا مراد ہے اس کی مشہور تفسیر تو یہی ہے کہ تمام مومن اور کافر اور نیک و بد پل صراط سے گزریں گے جو دوزخ پر قائم ہوگی اللہ سے ڈرنے والے مومنین اپنے اپنے درجہ کے موافق صحیح سلامت اس پر سے گزر جائیں گے۔ اور بد عمل چل نہ سکیں گے اور دوزخ کے اندر سے بھی بڑی بڑی سنڈاسیاں نکلی ہوئی ہوں گی جو گزرنے والوں کو پکڑ کر دوزخ میں گرانے والی ہوں گی ان سے چھل چھلا کر گزرتے ہوئے بہت سے (بد عمل) مسلمان پار ہوجائیں گے اور جن کو دوزخ میں گرانا ہی منظور ہوگا وہ سنڈاسیاں ان لوگوں کو گرا کر چھوڑیں گی۔ پھر کچھ مدت کے بعد اپنے عمل کے موافق نیز انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ملائکہ اور صالحین کی شفاعت سے اور آخر میں براہ راست ارحم الراحمین کی مہربانی سے وہ سب لوگ دوزخ سے نکال لیے جائیں گے جنھوں نے سچے دل سے کلمہ پڑھا تھا اور دوزخ میں صرف کافر مشرک اور منافق ہی رہ جائیں گے۔ (الترغیب والترہیب، حافظ منذری، ص 407 تا ص 413) اور بعض حضرات سے یوں مروی ہے کہ ورود سے دخول مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ دوزخ میں داخل تو سبھی ہوں گے لیکن اہل ایمان کے لیے وہ ٹھنڈی ہوجائے گی جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈا کردیا تھا۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے مرفوعاً یہ مضمون نقل کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یوں ہی منقول ہے کہ وہ ورود سے دخول مراد لیتے تھے۔ (ابن کثیر ص 131۔ 133) عبور پل صراط کا انکار تو نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ صحیح احادیث سے ثابت ہے صحیحین وغیرہ میں روایات موجود ہیں حضرت ابن عباس ؓ کے قول (ورود بمعنی دخول) کو اور عبور پل صراط والی روایات کو مانتے ہوئے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جو اہل ایمان پل صراط سے گزریں گے وہ پار ہونے کے بعد دوزخ میں داخل ہوں گے جو ان کے لیے ٹھنڈی کردی جائے گی اور سلامتی کے ساتھ باہر آکر جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Top