Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
اور جب وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا پھر تم لوگوں نے ان کے بعد بچھڑے کو معبود بنالیا اور تم ظلم کرنیوالے تھے
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا طور پر جانا اور بنی اسرائیل کا بچھڑے کی عبادت کرنا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر سمندر پار ہوگئے تو ایک میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں سے ان کو اپنے وطن فلسطین جانا تھا لیکن چالیس سال کے بعد وہاں پہنچ سکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے علاقے میں ان کو جانا نصیب ہوا ان کی وفات اسی میدان میں ہوگئی۔ اور اسی عرصہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت شریف عطا فرمائی۔ طور پہاڑ اسی میدان میں ہے۔ اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں بلایا ایک مہینہ اعتکاف کرنے اور روزے رکھنے کا حکم ہوا تھا۔ لیکن تیس راتیں گزرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مسواک کرلی جس سے وہ خاص قسم کی رائحہ دور ہوگئی جو روزہ رکھنے سے منہ میں پیدا ہوجاتی ہے اس کو حدیث میں (خَلُوْفُ فَمِّ الصَّاءِمِ ) سے تعبیر فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ ہے۔ (کما فی صحیح البخاری) جب یہ رائحہ دور ہوگئی تو دس دن مزید روزہ رکھنے کا حکم ہوا۔ لہٰذا چالیس دن کوہ طور پر گزارے۔ مدت مذکورہ گزر جانے کے بعد توریت شریف عطا فرمائی۔ سورة بقرہ میں چالیس راتوں کا ذکر ہے۔ اور سورة اعراف میں تفصیل بیان فرمائی کہ تیس راتوں میں دس راتیں اور بڑھا دی گئیں۔ لہٰذا چالیس راتیں پوری ہوئیں۔ (وَ اَتْمَمْنٰھَا بعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ) سامری سنار کا زیورات سے بچھڑا بنانا اور بنی اسرائیل کا اس کو معبود بنا لینا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور پر تشریف لے گئے اور وہاں چالیس دن لگ گئے۔ ادھر ان کے پیچھے ان کی قوم بنی اسرائیل نے بچھڑنے کی پر ستش شروع کردی جس کا واقعہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلنے والے تھے۔ تو انہوں نے قبطی قوم کے لوگوں سے ( جو مصر کے اصل باشندے تھے) زیورات مانگ لئے تھے۔ یہ زیورات ان لوگوں کے پاس تھے ان میں ایک آدمی سامری نام کا تھا جو سنار کا کام کرتا تھا اس نے ان زیوروں کو جمع کر کے گائے کے بچھڑے کی شکل بنا دی اور اس کے منہ میں مٹی ڈال دی۔ یہ وہ مٹی تھی جو اس نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے سے اٹھا لی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مٹی میں ایسا اثر ڈالا کہ اس مجسمہ سے گائے کے بچہ کی آواز آنے لگی۔ بنی اسرائیل مصر میں بت پرستی دیکھ آئے تھے۔ جب اس کی آواز سنی تو کہنے لگے۔ ھٰذَآ اِلٰھُکُمْ وَ اِلٰہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ ۔ (یعنی یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے سو وہ بھول گئے جو طور پر خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے گئے۔ معبود تو العیاذ باللہ یہاں موجود ہے) ۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیچھے چھوڑ گئے تھے انہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور بتایا کہ تم فتنے میں پڑگئے ہو تمہارا رب رحمن ہے میری اتباع کرو۔ میری اطاعت کرو۔ اسی پر بنی اسرائیل نے کہا کہ ہم برابر اس بچھڑے کے آگے پیچھے لگے رہیں گے۔ یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) واپس آجائیں۔ سامری کو بد دعا اور بچھڑے کا انجام : جب موسیٰ (علیہ السلام) توریت شریف کی تختیاں لے کر تشریف لائے تو انہوں نے یہ ماجرا دیکھا، بہت غصہ ہوئے اور پوری صورتحال معلوم فرمائی پتہ چلا کہ سامری نے یہ حرکت کی ہے۔ اس سے بھی سوال جواب فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کو بددعا دے دی اور فرمایا : (فَاذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ ) (تو جا تیرے لیے زندگی بھر یہ بات طے کردی گئی کہ تو جسے دیکھے گا اس سے کہے گا کہ مجھے نہ چھونا) ۔ لہٰذا وہ حیران پریشان جنگل میں پھرتا رہتا تھا جب وہ کسی کو چھو لیتا تھا یا کوئی شخص اس کو چھو لیتا تو دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بچھڑے کو جلا دیا اور راکھ کو سمندر میں بہا دیا اور فرمایا (اِنَّمَآ اِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا) (تمہارا معبود صرف اللہ ہی ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے) یہ جو فرمایا کہ ہم نے تم سے درگزر کردیا۔ یہ ان کی توبہ کرنے کے بعد کی بات ہے۔ ان کی توبہ کا ذکر ابھی ایک آیت کے بعد آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top