Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو (معبود) مقرر کرلیا اور تم ظلم کر رہے تھے
انعام چہارم : واذ واعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ ثم اتخذتم العجل من بعدہ وانتم ظلمون۔ فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل مصر میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے توریت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا اور یہ بھی وعدہ فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر چالیس شب کا اعتکاف فرمائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) تو کوہ طور پر تشریف لے گئے۔ سامری جو کہ منافق تھا اس نے بعد میں گوسالہ پرستی کا فتنہ کھڑا کردیا جس کا مفصل قصہ آئندہ آئے گا۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل اور تم ہمارے اس انعام کو یاد کرو جبکہ ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا۔ تیس راتیں ذی قعدہ کی اور دس راتیں ذی الحجہ کی رات کی تخصیص اس لیے فرمائی کہ رات کی عبادت میں مجاہدہ زیادہ ہے کما قال تعالی۔ ان ناشئۃ الیلھی اشد وطا واقوم قیلا۔ تحقیق رات کا اٹھنا نفس کے روندنے اور پامال کرنے اور بات کے سیدھا نکلنے میں شدید مؤثر ہے۔ نیز سماء دنیا کی طرف حق جل جلالہ کا نزول اجلال شب میں ہی ہوتا ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے اور رحمتیں اور برکتیں بھی اکثر رات ہی میں نازل ہوتی ہیں۔ کما قال تعالی۔ انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ۔ ہم نے قرآن کو مبارک رات میں اتارا۔ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر۔ علاوہ ازیں قرب الٰہی کے حاصل کرنے کے لیے رات سے بہتر کوئی دقت نہیں جیسا کہ ایک حدیث میں ہے۔ عن عمرو بن عنبسۃ ؓ انہ سمع النبی ﷺ یقول اقرب ما یکون الرب من العبد فی جوف اللیل الاخر فان ستطعت ان تکون ممن یذکر اللہ فی تلک الساعۃ فکن رواہ الترمذی واللفظ لہ وابنم خزیمۃ فی صحیحہ وقال الترمذی حدیث حسن صحیح غریب۔ عمرو بن عنبسہ ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حق جل شانہ بندہ کے ساتھ سب سے زائد قریب اور نزدیک وسط شب میں ہوتے ہیں پس اگر تم سے یہ ممکن ہو کہ تو اس وقت میں اللہ کے ذکر کرنے والوں میں سے ہو تو ضرور ہوجا۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا اور یہ لفظ ترمذی کی روایت کے ہیں اور ابن خزیمہ نے بھی اپنی صحیح میں اس کو روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن اور صحیح اور غریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اور آپ کے صحابہ کو قیام لیل کا حکم ہوا۔ یا ایہا المزمل قم الیل اور رات ہی میں تہجد کا حکم ہوا ومن الیل فتھجد بہ نافلۃ لک اور رات ہی آپ کو آسمان کی سیر کرائی گئی۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا الایۃ۔ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ جب سفر کرتے تو رات کو چلتے اور دن کو ٹھہرتے اس لیے کہ رات میں راستہ جلد قطع ہوجاتا ہے اسی طرح سیر الی اللہ کے لیے رات کو خاص کیا گیا تاکہ سالک جلد منزل مقصود پر پہنچ جائے رہا یہ امر کہ چالیس کا عدد کیوں خاص کیا گیا سو اس کی وجہ یہ ہے کہ اعداد کے مختلف مرتبے ہیں آحاد (اکائیاں) عشرات (دھائیاں) مات (سینکڑے) الوف (ہزار) جن میں سے دس کا عدد فی حد ذاتہ فی نفسہ کامل اور مکمل ہے جیسا کہ حق جل شانہ کا ارشاد ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ (یہ دس کامل ہیں) پس جس چیز کی خاص طور پر تکمیل مقصود ہوتی ہے تو اس عدد یعنی دس کو چار گنا کرلیا جاتا ہے۔ چناچہ حضرت آدم کی مٹی کا خمیر چالیس دن تک کیا گیا اور حدیث میں ہے کہ بطن مادر میں چالیس روز تک نطفہ رہتا ہے پھر چالیس روز تک علقہ خون بستہ پھر چالیس روز تک مغضہ یعنی پارۂگوشت اس کے بعد روح پھونکی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اس عدد کو عروج اور ترقی سے کوئی خاص مناسبت ہے پس جس طرح جسمانی عروج اور ترقی کے لیے چالیس کا عدد منتخب ہوا اسی طرح حق جل شانہ نے اپنی اس قدیم سنت کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) کے باطنی اور روحانی عروج اور ترقی کے لیے چالیس کا عدد خاص فرمایا۔ سنۃ اللہ التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا۔ وری عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ قال من اخلص للہ اربعین یوما ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی لسانہ ذکرہ رزین العبدری (ترغیب وترہیب ص 25 ج 1) ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو چالیس دن تک عمل خاص اللہ کے لیے کرے تو علم اور حکمت کے چشمے اس کے قلب سے نکل کر اس کی زبان پر جاری ہوجائیں گے (رواہ رزین العبدری) بینی اندر خود علوم اولیاء بےکتاب وبے معید واوستا اور اسی طرح نبوت و رسالت پیغمبری اور بعثت کے لیے چالیس کا عدد خاص کیا گیا۔ علاوہ ازیں اصل عمر انسان کی چالیس سال ہے اس کے بعد انحطاط اور زوال ہے جیسا کہ حتی اذا بلغ اشدہ وبلغ اربعین سنۃ (سورۂ احقاف) معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے حضرات اہل اللہ (حشرنا اللہ تعالیٰ فی زمرتھم واماتنا علی حبھم وسیرتھم امین) نے مجاہدہ اور ریاضت خلوت اور عزلت کے لیے چلہ تجویز فرمایا۔ حافظ شیرازی (رح) فرماتے ہیں شنیدم رہروے در سرزمینے ہمی گفت ایں معما باقرینے کہ اے صوفی شراب آنکہ شود صاف کہ در شیشہ بماند اربعینے الحاصل : ہمنے موسیٰ سے توریت دینے کے لیے چالیس رات کا وعدہ کیا۔ پھر تم نے موسیٰ کے جانے کے بعد ہی کہ جن کی ساری عمر ہی مدعی الوہیت کے مقابلہ اور غیر اللہ کی عبادت اور پرستش سے روکنے میں صرف ہوئی ان کے جاتے ہی تم نے عجلت اور جلد بازی میں ایک عجل (گوسالہ اور بچھڑا) بنا کر کھڑا کرلیا اور لوگوں سے یہ کہا کہ دیکھو تمہارا خدا یہ ہے جو اس گوسالہ کی صورت میں ظاہر اور نمودار ہوا ہے اور جو تمہارے پاس ہے اور موسیٰ خدا کو کوہ طور پر ڈھونڈتا پھرتا ہے جیسا کہ آج کل ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ خدا کسی جسم میں حلول کرسکتا ہے اصطلاح متکلمین میں اس فرقہ کا نام فرقہ حلولیہ ہے سامری نے لوگوں کو یہی سمجھایا کہ تمہارے پروردگار نے اس گوسالہ کی صورت میں ظہور کیا ہے غرض یہ کہ سامری نے گوسالہ بنا کر کھڑا کردیا۔ اول تو گوسالہ بنانا ہی برا تھا اس لیے کہ ذی روح کی تصویر بنانا قطعاً حرام ہے پھر یہ کہ گوسالہ بنا کر کیا کیا وہ زبان پر لانے کی چیز نہیں۔ اندیشہ ہے کہ کہیں زمین اور آسمان نہ پھٹ جائیں اور تم بڑے ہی ظالم تھے۔ کہ خدائے عز وجل کو چھوڑ کر ایسے جانور کہ جو حماقت میں ضرب المثل ہے اس کی محض ایک تصویر کو اپنا خدا بنالیا۔ بیل حماقت میں ضبر المثل ہے اور بیل کا بچہ تو بیل سے بھی کم ہے اس یلے کہ وہ بےشعوری اور بےعقلی میں اس سے بڑھا ہوا ہے۔ کیا یہ انتہائی ظلم نہیں۔ ذرا تم اپنے عدل اور انصاف فہم اور فراست کا کچھ اور اندازہ لگاؤ کیا ہاتھ کی بنائی ہوئی چیز بھی خدا اور معبود ہوسکتی ہے۔ نیز تم نے یہ سمجھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب تم کو فرعون کی عبادت سے روکتے تھے حالانکہ وہ کسی درجہ میں نفع وضرر پر بھی قدرت رکھتا تھا تو اس بےعقل اور بےجان حیوان کی عبادت کی کیسے اجازت دے ستے ہیں۔ آخر فرعون بیل کے بچہ سے تو بہتر ہی تھا۔ اس عمل شنیع کا مقتضا تو یہ تھا کہ تم کو فوراً ہلاک کردیا جاتا مگر ہم نے اپنی کمال رحمت اور غایت رافت سے درگزر کیا جیسا آئندہ آیت میں فرماتے ہیں۔
Top