Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 31
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور ان لوگوں نے کہا کہ یہ قرآن دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا ؟
مکہ والوں کا جاہلانہ اعتراض کہ مکہ یا طائف کے بڑے لوگوں میں سے نبی کیوں نہ آیا، اہل دنیا کو دنیا ہی محبوب ہے، سونے چاندی کے اموال دنیا میں کام آتے ہیں اور آخرت متقیوں کے لیے ہے دنیا دار دنیا ہی کو بڑی چیز سمجھتے ہیں جس کے پاس دنیاوی مال و اسباب زیادہ ہوں یا چودھری قسم کا آدمی ہو کسی قسم کی سرداری اور بڑائی حاصل ہو اسی کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں، خواہ کیسا ہی بڑا ظالم، خائن، سودخور، کنجوس مکھی چوس ہو، جب کسی بستی یا محلہ میں داخل ہو اور دریافت کرو کہ یہاں کا بڑا آدمی کون ہے تو وہاں کے رہنے والے کسی ایسے ہی شخص کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مالدار اور صاحب اقتدار ہو، اخلاق فاضلہ والے انسان، اللہ کے عبادت گزار بندے، علوم و معارف کے حاملین کی بڑائی کی طرف لوگوں کا ذہن جاتا ہی نہیں، عموماً انسانوں کا یہی مزاج اور حال رہا ہے رسول اللہ ﷺ کے اخلاق فاضلہ اور خصائل حمیدہ کے سب معتقد اور معترف تھے لیکن جب آپ نے اپنی نبوت اور رسالت کا اعلان کیا تو جہاں تکذیب اور انکار کے لیے لوگوں نے بہت سے بہانے ڈھونڈے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ پیسے والے آدمی نہیں اور آپ کو دنیاوی اعتبار سے کوئی اقتدار بھی حاصل نہیں لہٰذا آپ کیسے نبی اور رسول ہوگئے ؟ اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہی تھا اور قرآن نازل کرنا ہی تھا تو شہر مکہ یا شہر طائف کے بڑے آدمیوں میں سے کسی شخص کو رسول بنانا چاہیے تھا وہی رسول ہوتا اسی پر قرآن نازل ہوتا اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو رسول بنایا جو پیسہ کوڑی کے اعتبار سے برتر نہیں اور جسے کوئی اختیار اور اقتدار کی برتری حاصل نہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ معالم التنزیل میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کا اشارہ ولید بن مغیرہ اور عروہ بن مسعود ثقفی کی طرف تھا پہلا شخص اہل مکہ میں اور دوسرا شخص اہل طائف میں سے تھا یہ دونوں دنیاوی اعتبار سے بڑے سمجھے جاتے تھے ان ناموں کی تعیین میں اور بھی اقوال ہیں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے ان لوگوں کی بات کی تردید فرمائی اور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿ اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ 1ؕ﴾ (کیا یہ لوگ آپ کے رب کی رحمت یعنی نبوت کو تقسیم کرتے ہیں) یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ انہیں کیا حق ہے کہ منصب نبوت کو اپنے طور پر کسی کے لیے تجویز کریں رسول بنانے کا اختیار انہیں کس نے دیا ہے کہ یہ جس کے لیے چاہیں عہدہ نبوت تجویز کریں اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے اللہ بندوں میں سے جسے چاہے نبوت و رسالت سے سرفراز فرمائے وہ جسے منصب نبوت عطا فرماتا ہے اسے ان اوصاف سے متصف فرما دیتا ہے جن کا نبوت کے لیے ہونا ضروری ہے سورة انعام میں فرمایا ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ 1ؕ﴾ (اللہ خوب جاننے والا ہے اپنے پیغام کو جہاں بھیجے) ان لوگوں کو نہ کسی کو نبی بنانے کا اختیار ہے نہ نبی کے اوصاف تجویز کرنے کا۔ پھر فرمایا ﴿ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (ہم نے ان کے درمیان معیشت یعنی زندگی کا سامان دنیا والی زندگی میں بانٹ دیا) ﴿ وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ﴾ (اور درجات کے اعتبار سے ہم نے بعض کو بعض پر فوقیت دے دی) کسی کو غنی بنایا کسی کو فقیر کسی کو مالک اور کسی کو مملوک ﴿لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا 1ؕ﴾ تاکہ بعض لوگ بعض لوگوں کو اپنے کام میں لاتے رہیں) اگر سبھی برابر کے مالدار ہوتے تو کوئی کسی کا کام کیوں کرتا، اب صورت حال یہ ہے کہ کم پیسے والے مالداروں کے باغوں اور کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرتے ہیں اور طرح طرح کے کاموں کی خدمت انجام دیتے ہیں اس طرح سے عالم کا نظام قائم ہے مالدار کام لیتے ہیں کم پیسے والے مزدوری لیتے ہیں دنیا اس طرح چل رہی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ شانہٗ نے دنیاوی معیشت کو انسانوں کی رائے پر نہیں رکھا جو ادنیٰ درجہ کی چیز ہے اور اپنی حکمت کے موافق بندوں کی مصلحتوں کی رعایت فرماتے ہوئے خود ہی مال تقسیم فرما دیا تو نبوت کا منصب کسی کو لوگوں کی رائے کے موافق کیسے دے دیا جاتا، جو بہت ہی بلند وبالا چیز ہے۔ قال القرطبی فاذا لم یکن امر الدنیا الیھم فیکف یفوض امرا لنبوةالیہ، ﴿وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ 0032﴾ (علامہ قرطبی ؓ فرماتے ہیں جب دنیا کا معاملہ ان کے سپرد نہیں تو نبوت اس کے اختیار میں کیسے دی جاسکتی ہے اور آپ کے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ لوگ جمع کرتے ہیں) یعنی جن لوگوں کو دنیاوی چیزیں دی گئی ہیں وہ انہیں جمع کرنے سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں انہیں سمجھنا چاہیے کہ پروردگار جل مجدہٗ کی رحمت یعنی جنت اور وہاں کی نعمتیں اس سے بہتر ہیں۔
Top