Anwar-ul-Bayan - Al-Hajj : 42
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُۙ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : تمہیں جھٹلائیں فَقَدْ كَذَّبَتْ : تو جھٹلایا قَبْلَهُمْ : ان سے قبل قَوْمُ نُوْحٍ : نوح کی قوم وَّعَادٌ : اور عاد وَّثَمُوْدُ : اور ثمود
اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو ان سے پہلے نوح کی قوم، اور عاد، اور ثمود،
ہلاک شدہ بستیوں کی حالت اور مقام عبرت ان آیات میں اول تو رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی ہے کہ اگر آپ کے مخاطبین آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے آپ سے پہلے بھی حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ان کی امتوں نے جھٹلا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اور قوم عاد (جو حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم تھی) اور قوم ثمود (جو حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اور مدین والے لوگ (جن کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے) ان سب نے اپنے اپنے نبیوں کی تکذیب کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی تکذیب کی گئی ان حضرات نے صبر کیا اور دعوت کا کام جاری رکھا آپ بھی صبر کیجیے اور اپنا کام جاری رکھئے، یہ تو آپ کی ذات کے متعلق ہے اب رہا مکذبین کا معاملہ تو انہیں سابقہ امتوں سے سبق لینا چاہئے ان امتوں میں جو کافر تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دی پھر انہیں پکڑ لیا۔ یہ گرفت سخت عذاب کی صورت میں تھی ان لوگوں کو پتہ چل گیا کہ اللہ کا عذاب کیسا ہے ؟ ان لوگوں کو ان کے حالات معلوم ہیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ وہ کیسے سخت عذاب میں مبتلا ہوئے اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ کتنی ہی بستیاں تھیں جو ظالم تھیں اور نافرمانی پر تلی ہوئی تھیں ہم نے انہیں ہلاک کردیا، دنیا میں ان کے نشان موجود ہیں ان کے گھروں کی دیواریں ان کی چھتوں پر گری ہوئی ہیں (کیونکہ پہلے چھتیں گریں پھر اوپر سے دیواریں گریں) اور کتنے ہی کنویں پڑے ہیں جو بےکار ہیں، کسی کے کچھ کام نہیں آتے اور کتنے ہی ویران محل پڑے ہوئے ہیں جنہیں بنانے والوں نے مضبوط بنایا تھا آج وہ کسی کے کام نہیں آتے ان کے بنانے والے اور رہنے والے ہلاک ہوئے برباد ہوئے آج کوئی ان میں جھانکنے والا نہیں ہے۔ مزید فرمایا کہ یہ لوگ دنیا میں نہیں گھومے پھرے ؟ (سفر ان کے لیے ہیں ہی اور برباد شدہ بستیوں سے گزرے ہیں اور ایسے محلات اور کنویں انہوں نے دیکھے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا لیکن عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے) اگر عبرت لینے کا مزاج ہوتا تو ان کے قلوب سمجھ جاتے اور ان کے کانوں میں جو موعظت و عبرت کی باتیں پڑتی ہیں اگر انہیں سننے کی طرح سنتے تو عبرت حاصل کرلیتے اور سنی ہوئی باتوں کو ان سنی نہ کرتے۔ عبرت کی چیزیں سامنے ہیں آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ آنکھوں سے دیکھنا ضائع ہو رہا ہے اصل بات یہ ہے کہ دل اندھے بنے ہوئے ہیں اس لیے یہ عبرت لیتے ہیں نہ حق قبول کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ آپ سے جلدی عذاب آجانے کا تقاضا کرتے ہیں (اور اس جلدی بلانے کے تقاضے میں عذاب کا انکار کرنا مقصود ہے مطلب ان کا یہ ہے کہ عذاب آنا ہے تو کیوں نہیں آجاتا ہم تقاضا کر رہے ہیں پھر بھی عذاب کا ظہور نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسے ہی باتیں ہیں اب تک نہ عذاب آیا ہے نہ آئے گا) اس کے جواب میں فرما دیا کہ (وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ وَ عْدَہٗ ) (کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ خلاف نہ کرے گا) عذاب ضرور آئے گا مگر اس کے آنے کے لیے جو اجل مقرر فرما دی ہے اس کے مطابق آئے گا عذاب آنے میں دیر ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آنا ہی نہیں ہے۔
Top