Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 42
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُۙ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : تمہیں جھٹلائیں فَقَدْ كَذَّبَتْ : تو جھٹلایا قَبْلَهُمْ : ان سے قبل قَوْمُ نُوْحٍ : نوح کی قوم وَّعَادٌ : اور عاد وَّثَمُوْدُ : اور ثمود
اور اگر یہ لوگ تمہاری تکذیب کر رہے ہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ ان سے پہلے قوم نوح، عاد، ثمود ،
آگے کا مضمون …… آیات 57-42 آیت 41 پر توضیحی آیات، جو بیچ میں بطور جملہ معترضہ آگئی تھیں، ختم ہوئیں۔ اب آگے کلام اپنے اصل سلسلہ سے پھر مربوط ہوگیا اور حضرات انبیائے کرام اور ان کے مکذبین کی تاریخ کی روشنی میں نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کو تسلی دی گئی ہے کہ اطمینان رکھو، اللہ کا ہر وعدہ پورا ہو کے رہے گا اور اس کی ہر وعید شدنی ہے۔ اگر اس کے ظہور میں کچھ تاخیر ہو رہی ہے تو یہ سنت الٰہی کے تحت ہو رہی ہے۔ اس طرح اللہ اپنے نیک بندوں کا امتحان اور ان کے مخلافین کو ڈھیل دے کر ان پر اپنی حجت تمام کرتا ہے۔ لوگوں کے پاس آنکھیں ہوں تو اس سنت الٰہی کے آثار اس ملک میں قدم قدم پر موجود ہیں لیکن جن کے دلوں کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں ان پر یہ آثار کیا کارگر ہو سکتے ہیں ! اسی ذیل میں نبی ﷺ کو ہدایت فرمائی کہ تم مخالفین کے رویہ سے بےنیاز ہو کر ایک نذیر مبین کی طرح، لوگوں کو سامنے کے خطرے سے آگاہ کر دو۔ اگر یہ تمہاری دعوت کی راہ میں اڑنگے ڈالتے ہیں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ہر نبی اور رسول کو اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آیا ہے لیکن اللہ کی بات پوری ہو کے رہی اور مخالفین و شیاطین کی تمام فتنہ انگیریاں اللہ نے نابود کردیں۔ شیاطین کو ان فتنہ انگیزیوں کا اللہ نے جو موقع دیا ہے تو اس لئے دیا ہے کہ اس طرح حق پوری طرح نکھر کر سامنے آجاتا ہے اور اہل علم و ایمان پوری بصیرت کے ساتھ اس کو قبول کرتے ہیں، پھر ان کے قدم متزلزل نہیں ہوتے …… اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 44-42 وکذب موسیٰ حضرت موسیٰ کی تکذیب کا ذکر مجہول کے صیغہ سے کیا ہے درآحالی کہ اوپر دور سے انبیاء کی تکذیب کا ذکر ان کی قوموں کی طرف نست کے ساتھ فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت موسیٰ کی تکذیب ان کی قوم نے نہیں بلکہ فرعونیوں نے کی۔ آنحضرت ﷺ سے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت موسیٰ ہی تھے جن کے حالات کا علم آنحضرت ﷺ کو سب سے زیادہ ہوسکتا تھا۔ اس وجہ سے کسی تصریح کے بغیر خاتمہ کلام کے طور پر، بات یوں فرما دی گی کہ تکذیب تو ابھی تم سے پہلے موسیٰ کی بھی ہوچکی ہے ! تکیر کا مفہوم نکیر اصل میں نکیری ہے ی گرگئی ہے اور کسرہ اس کی یادگار ہے۔ عربی میں قافیہ وغیرہ کی رعایت سے ی اس طرح گر جایا کرتی ہے۔ نکیر کے معنی عام طور پر اہل لغت نے انکار کے لئے ہیں لیکن مجھے اس سے انکار ہے۔ کلام عرب کے شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معنی مجرد انکار کے نہیں بلکہ اس انکار کے ہیں جس کے ساتھ غیرت، نفرت اور بیزاری کی شدت پائی جاتی ہو۔ اس وجہ سے میں نے اس کا ترجمہ پھٹکار کیا ہے۔ رسولوں کے معاملہ میں قوموں کی مشترک کو ایت ان آیات میں نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ تمہاری قوم تمہارے ساتھ جو معاملہ کر رہی ہے یہ ذرا بھی اس سے مختلف نہیں ہے جو دوسری قوموں نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا۔ رسولوں اور ان کی قوموں کی تاریخ بعینیہ یہی ہے جو ٹھیک ٹھیک تمہارے ساتھ بھی دہرائی جا رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس صورتحال میں نہ تمہاری کسی کوتاہی کو دخل ہے اور نہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہیں جن چیزوں سے مسلح ہو کر میدان میں اترنا تھا۔ ان میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ تمہاری جانب سے سب کچھ ٹھیک ہے لیکن قوموں کی جو روایت ہے وہ بدلنے والی نہیں ہے۔ بس اپنا کام کئے جائو ! لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑو۔ فاملیت للکفرین ثم اخذتھم فکیف کان نکیر یعنی جن قوموں نے رسولوں کی تکذیب کی ان کو اللہ نے فوراً نہیں پکڑا بلکہ ان کو کافی مدت تک ڈھیل دی لیکن اس ڈھیل نے اصلاح حال کے بجائے جب ان کی سرکشی ہی میں اضافہ کیا تو اللہ نے ان کو پکڑا اور پھر اس طرح پکڑا کہ ان کی ہستی ہی مٹا دی۔ یہی معاملہ تمہاری قوم کے ساتھ بھی ہوگا اگر اس نے اپنی روش نہ بدلی۔
Top