Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
قوم ثمود نے پیغمبروں کو جھٹلایا،
قوم ثمود کا حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلانا اور تکذیب و انکار کے جرم میں ہلاک ہونا اس رکوع میں قوم ثمود کی سر کشی اور بربادی کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ لوگ قوم عاد کے بعد تھے ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے انہوں نے ان لوگوں کو توحید کی دعوت دی سمجھایا بجھایا، قوم عاد کی طرح ان لوگوں نے بھی ضد وعناد اور سرکشی پر کمر باندھ لی، حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں یہ بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں امین ہوں تم اللہ سے ڈرو اور میری فرمانبر داری کرو اور یہ فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں خوب نعمتیں دی ہیں انہیں یاد کرو نا شکرے نہ بنو اس نے تمہیں باغ دیئے چشمے عطا فرمائے، کھیتیاں عنایت فرمائیں، کھجوروں کے باغ دیئے، ان کھجوروں کے گپھے گوندھے ہوتے ہیں جو خوب پھل لانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مزید یہ کرم فرمایا کہ تمہیں پہاڑوں کے تراشنے کی قوت اور ہمت عطا فرمائی تم پہاڑوں کو تراشتے ہو اور فخر کرتے ہوئے اور اتراتے ہوئے ان میں گھر بنالیتے ہو کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ ہمیشہ امن وامان اور چین و آرام میں رہو گے اگر تمہارا یہ خیال ہے تو غلط ہے دیکھو تمہیں مرنا بھی ہے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پیش ہونا بھی ہے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری فرمانبر داری کرو، جن لوگوں نے تمہاری راہ مار رکھی ہے جو حد سے آگے نکل چکے ہیں زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے تم ان کی باتوں میں آکر اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو، تمہارے جو بڑے ہیں تمہارا ناس کھو رہے ہیں۔ وہ تمہیں حق قبول نہیں کرنے دیتے۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ ہمارے خیال میں تو صرف یہ بات ہے کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے اسی وجہ سے تم ایسی باتیں کر رہے ہو، اور یہ بات بھی ہے کہ تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو تمہارے اندر وہ کون سی بڑائی ہے جس کی وجہ سے تم رسول بنائے گئے ہو ؟ سورة القمر میں ہے کہ ان لوگوں نے کہا (اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُہٗ اِِنَّا اِِذًا لَّفِیْ ضَلاَلٍ وَّسُعُرٍ ءَاُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ ھُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ) (سو وہ کہنے لگے کیا ہم ایسے شخص کا اتباع کریں جو ہم ہی میں سے ایک شخص ہے اگر ہم ایسا کریں تو ضرور بڑی گمراہی اور دیوانگی میں پڑجائیں گے) کیا ہم سب کے درمیان سے اسی کی طرف وحی کی گئی ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے شیخی خورہ ہے) باتیں کرتے کرتے وہ لوگ یہاں تک آگے بڑھے کہ انہوں نے یوں کہہ دیا کہ اچھا کوئی خاص معجزہ پیش کرو اگر تم سچے ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ دیکھو یہ اونٹنی ہے اللہ کی طرف سے بطور معجزہ بھیجی گئی ہے (بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے خود ہی کہا تھا کہ ہم تو تمہیں اس وقت نبی مانیں گے جب تم پہاڑ سے اونٹنی نکال کر دکھاؤ ان کو ہرچند سمجھایا کہ اپنا منہ مانگا معجزہ فیصلہ کن ہوتا ہے اگر تمہارے مطالبہ پر پہاڑ سے اونٹنی نکل آئی اور تم ایمان نہ لائے تو سمجھ لو کہ جلد ہی عذاب آجائے گا لیکن وہ نہ مانے) اللہ کے حکم سے پہاڑ سے اونٹنی بر آمد ہوئی یہ اونٹنی عام اونٹنیوں کی طرح نہ تھی اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی تھی اس کو بہت زیادہ پانی پینے کی ضرورت تھی ان لوگوں کو واضح طور پر بتادیا تھا (لَّہَا شِرْبٌ وَّلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ) (اس کے لیے پانی پینے کا وقت مقرر ہے اور تمہارے لیے ایک دن کا پینا مقرر ہے) یہ اونٹنی کنویں میں منہ لٹکا کر اکیلی کنویں کا پانی پی جاتی تھی اور قوم ثمود کے لوگ روزانہ پانی نہیں پلا سکتے تھے خود ان کے لیے پانی بھرنے کا اور مویشیوں کو پانی پلانے کا دن مقرر کردیا تھا۔ پہلے تو اپنے منہ سے اونٹنی مانگی تھی پھر جب پانی کی تقسیم کا معاملہ در پیش ہوا تو ان لوگوں کو یہ بات کھلنے لگی اور اس اونٹنی کا وجود نا گوار ہوا اونٹنی کے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو ان کے ارادوں کی اطلاع ملی تو فرمایا اسے برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا اگر تم نے ایسا کیا تو تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا، بالآخر عذاب آ ہی گیا اور وہ لوگ ہلاک کردیئے گئے ان لوگوں پر سخت چیخ کا اور زلزلہ کا عذاب آیا۔ اسی کو فرمایا (فَعَقَرُوْھَا فَاَصْبَحُوْا نَادِمِیْنَ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابَ ) (سو انہوں نے اس اونٹنی کو کاٹ ڈالا پھر پشیمان ہوئے پھر عذاب نے ان کو پکڑ لیا) سورة اعراف اور سورة ھود میں تفصیل گزر چکی ہے۔ (انوار البیان ص 456 ج 3 وص 509 ج 4) (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاآیَۃً ) (بلاشبہ اس میں بڑی عبرت ہے) (وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) (اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں) (وَاِِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ) (اور بیشک آپ کا رب عزیز ہے رحیم ہے) ۔
Top