Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 62
قَالَ كَلَّا١ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ
قَالَ كَلَّا : اس نے کہا ہرگز نہیں اِنَّ : بیشک مَعِيَ : میرے ساتھ رَبِّيْ : میرا رب سَيَهْدِيْنِ : وہ جلد مجھے راہ دکھائیگا
موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں بلاشبہ میرے ساتھ رب ہے، وہ مجھے ابھی راہ بتادے گا،
(اِِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ ) (بلاشبہ میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے ضرور راہ بتائے گا) موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ شانہٗ کا حکم ہوا کہ سمندر میں اپنی لاٹھی مار دو چناچہ انہوں نے لاٹھی دریا پر مار دی، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ سمندر پھٹ گیا اور جگہ جگہ پانی ٹھہر گیا اور راستے نکل آئے پانی کے ٹھہرنے سے جگہ جگہ جو ٹکڑے بنے وہ اتنے بڑے تھے جیسے کوئی بڑا پہاڑ ہو ان ٹکڑوں کے درمیان راستے نکل آئے اور بنی اسرائیل کے قبیلے ان راستوں سے پار ہوگئے فرعون جو اپنے لشکر کے ساتھ پیچھے آ رہا تھا اس نے یہ نہ سوچا کہ یہ سمندر تو کبھی ٹھہرا نہیں اس میں کبھی راستے نہیں بنے یہ راستے کیسے بن گئے ؟ اگر غور کرتا تو اس کی سمجھ میں آجاتا کہ یہ بھی حضرت موسیٰ کا ایک معجزہ ہے اور وہ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اگر اس وقت بھی ایمان لے آتا تو ڈوبنے کی مصیبت سے دو چار نہ ہوتا، لیکن اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے لشکر کو لے کر بنی اسرائیل کے پیچھے سمندر میں داخل ہوگیا بنی اسرائیل پار ہو کر دوسرے کنارہ پر پہنچ گئے اور فرعون اپنے لشکروں سمیت ڈوب گیا جب اس کا پورا لشکر سمندر میں داخل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سمندر کو حکم دے دیا کہ آپس میں پانی کے سب ٹکڑے مل جائیں اور جو خشک راستے بن گئے تھے وہ ختم ہوجائیں چناچہ سمندر کے ٹکڑے آپس میں مل گئے فرعون خود بھی ڈوبا اپنے لشکر کو بھی لے ڈوبا جب ڈوبنے لگا تو ایمان لے آیا اور کہنے لگا (اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِ یْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ) (میں ایمان لایا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں) اللہ پاک کا ارشاد ہوا (اآلْءٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ) (کیا اب ایمان لاتا ہے حالانکہ تو فساد کرنے والوں میں سے تھا) ۔ الحاصل اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام ساتھیوں کو نجات دیدی اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق فرما دیا۔ فرعون اپنی اکڑ مکڑ کے ساتھ یہ سمجھ کر نکلا تھا اور اپنے لشکروں کو ہمراہ لیا تھا کہ بنی اسرائیل کو ابھی ابھی پکڑ کرلے آئیں گے، اپنے باغوں کو اور چشموں کو اور خزانوں کو اور عمدہ مکانوں کو چھوڑ کر نکلے تھے اور خیال یہ تھا کہ ابھی واپس آتے ہیں، یہ خبر نہ تھی کہ اب لوٹنا نصیب نہ ہوگا۔ مذکورہ بالا تمام نعمتوں سے محروم ہوئے ڈوبے اور دریا برد ہوئے دنیا بھی گئی اور آخرت کا دائمی عذاب اس کے علاوہ رہا، فرعون جیسے دنیا میں بنی اسرائیل کو پکڑنے کے لیے اپنے لشکر سے آگے آگے جا رہا تھا اسی طرح قیامت کے دن دوزخ میں جاتے ہوئے اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا کما قال تعالیٰ ، فی سورة ھود (علیہ السلام) (یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاَوْرَدَھُمُ النَّارَ ) (فرعون قیامت کے دن دوزخ کی طرف جاتے ہوئے اپنی قوم سے آگے آگے ہوگا سو وہ انہیں دوزخ میں وارد کر دے گا) ۔ فرعون اور فرعون کے ساتھی باغوں اور چشموں اور خزانوں اور اچھے مکانوں سے محروم ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بنی اسرائیل کو عطا فرما دیں، صاحب روح المعانی (رح) نے بنی اسرائیل کو وارث بنانے کے بارے میں اولاً تو مفسر واحدی سے یوں نقل کیا ہے کہ جب فرعون اور اس کی قوم کے لوگ غرق ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو واپس مصر بھیج دیا اور قوم فرعون کے جو اموال اور جائیدادیں اور رہنے کے گھر تھے وہ سب بنی اسرائیل کو عطا فرما دیے حضرت حسن سے بھی یہی بات نقل کی ہے اور ایک قول یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ فرعون کے غرق ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ واپس چلے گئے تھے اور وہاں جا کر قوم فرعون یعنی قبطیوں کے اموال پر قابض ہوگئے تھے اور باقی لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ شام کی طرف چلے گئے اور ایک قول یہ لکھا ہے کہ (وَ اَوْرَثْنَاھَا بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ ) کا یہ مطلب نہیں کہ سمندر سے نجات پانے کے بعد اسی وقت مصر کو واپس لوٹ گئے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد انہیں مصر میں اقتدار مل گیا اور مذکورہ چیزیں ان کے قبضہ میں آگئیں لیکن اقتدار اور قبضہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا۔ احقر کے خیال میں یہی بات صحیح ہے کیونکہ آیتوں میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ انہیں فوراً ہی مصر میں اقتدار مل گیا اور اس قول کے مطابق جنات اور عیون اور کنوز کے بارے میں یوں کہا جائے گا کہ الفاظ جنس کے لیے استعمال ہوئے ہیں عین وہی چیزیں مراد نہیں ہیں جو فرعون اور ان کے ساتھیوں نے چھوڑی تھیں۔
Top