Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 133
قَالَ كَلَّا١ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ
قَالَ كَلَّا : اس نے کہا ہرگز نہیں اِنَّ : بیشک مَعِيَ : میرے ساتھ رَبِّيْ : میرا رب سَيَهْدِيْنِ : وہ جلد مجھے راہ دکھائیگا
بیشک کافر ہوئے42 جنہوں نے کہا کہ اللہ تو وہی مسیح ہے مریم کا بیٹا تو کہہ دے پھر کس کا بس چل سکتا ہے43 اللہ کے آگے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کرے مسیح مریم کے بیٹے کو اور اس کی ماں کو اور جتنے لوگ ہیں زمین میں سب کو اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں44 اور زمین کی اور جو کچھ درمیان ان دونوں کے ہے پیدا کرتا ہے جو چاہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
42 لَقَدْ کَفَرَ الخ یہ یَا اَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلُنَا الخ سے متعلق ہے۔ اے اہل کتاب ہمارا آخری رسول تمہارے پاس آچکا ہے۔ جو ان سچی باتوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے جنہیں تم چھپاتے تھے۔ من جملہ ان کے ایک بات یہ تھی کہ جو لوگ غیر خدا مثلاً حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ وہ عین خدا ہے اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح میں حلول کیے ہوئے ہے یا اللہ تعالیٰ بشکل مسیح دنیا میں آیا ہے (شاہ عبد القادر) ایسے لوگ یقینا بلا شبہ کافر ہیں۔ یہ ان عیسائیوں کے خیال کا رد ہے جو حضرت مسیح میں اللہ تعالیٰ کے حلول کے قائل ہیں۔ یعنی یعقوبی فرقہ (روح جلد 6 ص 98) لیکن حضرت شیخ فرماتے ہیں اس سے اتحاد ذات مراد نہیں بلکہ اتحاد صفات مراد ہے یعنی عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو صفات ِ کارسازی (صفات ربوبیت) میں خدائے تعالیٰ کا شریک سمجھ رکھا تھا۔ وہ حضرت مسیح کو غیب دان، مافوق الاسباب متصرف و مختار مانتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سے خدائی اختیارات دے رکھے ہیں اور وہ حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے غائبانہ طور پر ان کو پکارتے تھے۔ یہ عقیدہ اور فعل صریح شرک تھا اس لیے ایسے لوگوں کے کافر ہونے کا تاکید سے اعلان فرمایا۔ اس آیت کا مابعد حضرت شیخ قدس سرہ کے بیان کردہ مفہوم کی تائید کرتا ہے اس آیت کا ماقبل سے ربط یہ ہے کہ مسلمانوں سے فرمایا۔ یہود و نصاریٰ سے مت ڈرو جن کو ہم نے ذلیل کردیا ہے اور جن کے درمیان ہم نے عداوت ڈال دی ہے بلکہ ان سے صاف کہہ دو کہ تم کافر و مشرک ہو۔ 43 قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ الخ یہ نصاریٰ کے مذکورہ بالا کفریہ عقیدہ کے بطلان پر عقلی دلیل ہے۔ یعنی الہ (معبود) تو صرف وہی ہوسکتا ہے۔ جس کی قدرت کامل ہو اور جس کے اختیارات ہر چیز پر حاوی ہوں۔ حضرت مسیح اور حضرت مریم (علیہما السلام) جن کو عیسائی معبود مانتے ہیں وہ خدا کے سامنے بالکل عاجز اور بےبس ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان دونوں کو اور ان کے ساتھ ساری مخلوق کو ہلاک کرنا چاہے اور انہیں موت کی نیند سلا دینا چاہے تو وہ خود تو کیا دنیا کی کوئی طاقت انہیں موت سے نہیں بچا سکتی۔ جو خود اس قدر بےبس ہیں کہ اپنی ذات سے بھی کوئی تکلیف دور نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی کیا کارسازی کریں گے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے حیات مسیح (علیہ السلام) پر استدلال کیا ہے کیونکہ اِنْ اَرَادَ میں اِنْ واقع ہے جو مستقبل میں وقوع جزا پر دلالت کرتا ہے لیکن اس پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اس سے تو حضرت مریم کی حیات بھی ثابت ہوجائے گی تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے وَاُمَّہٗ سے پہلے وَ قَدْ اَھْلَکَ مقدر ہے لیکن یہ تمام تکلفات باردہ ہیں۔ حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت کا حیات و ممات حضرت مسیح سے کوئی تعلق نہیں۔ اس آیت کا موضوع مسیح اور ان کی والدہ کی الوہیت کی نفی ہے۔ اور وَاُمَّہٗ میں واو عاطفہ نہیں بلکہ بمعنی مع ہے اور اُمَّہٗ مفعول معہ ہے عطف کی صورت میں فعل کا تعلق معطوف علیہ اور معطوف دونوں سے مستقل طور پر ہوتا ہے مگر مفعول معہ کی صورت میں مفعول بہ اور مفعول معہ دونوں کے مجموعے سے فعل متعلق ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ فعل دونوں سے فرداً فرداً بھی متعلق ہے یا نہیں تو اس ترکیب کو اس سے بحث نہیں ہوتی۔ یہ چیز خارجی قرائن اور دلائل سے ثابت ہوگی۔ اسی طرح یہاں اہلاک کا تعلق مسیح اور امہ اور مَنْ فِی الْاَرضِ کے مجموعے سے ہے۔ رہی یہ بات کہ اہلاک تینوں سے فرداً فرداً خاج میں متعلق ہے یا نہیں تو اس کی یہاں بحث نہیں ہے۔ یہ حضرت شیخ انور کے خصوصی جواہر پاروں میں سے ہے۔ 44 وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ الخ مبتداء پر جزا کی تقدیم افادہ حصر کے لیے ہے۔ یعنی آسمانوں اور زمین کے تمام اختیارا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں وہی ہر چیز کا مالک ہے نہ کہ حضرت مسیح اور ان کی والدہ اور مشرکین کے دوسرے مزعومہ معبودین۔ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ حضرت مسیح اور ان کی والدہ میں یہ صفت موجود نہیں۔ وَاللہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ ہر چیز پر قدرت بھی اللہ ہی کو ہے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کو نہیں تو پھر وہ معبود کیسے بن سکتے ہیں۔ چونکہ ابتداء کلام میں حصر ہے اس لیے باقی دو حصوں میں بھی حصر ہوگا۔ تفصیل کے لیے مقدمہ تفسیر جواہر القرآن ص 11 ملاحظہ کیجئے۔
Top