Anwar-ul-Bayan - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے اس کلام کو ان لوگوں کے لیے مسلسل بھیجا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں،
سابق اہل کتاب قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں ان کے لیے دہرا اجر ہے یہ پانچ آیات ہیں پہلی آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کو اس طرح نازل کیا کہ یکے بعد دیگرے آیات نازل ہوتی رہی ہیں جن میں وعدے بھی ہیں وعیدیں بھی، قصے بھی ہیں اور عبرت کے واقعات بھی، نصائح بھی ہیں اور مواعظ بھی، ان کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے نصیحت حاصل کریں شرک اور کفر کو چھوڑیں۔ قرآن لانے والے ﷺ پر ایمان لائیں۔ دوسری اور تیسری آیت میں اہل کتاب کے بارے میں فرمایا کہ جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصاف پسند چند یہودیوں نے اسلام قبول کرلیا جن میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ بھی تھے اور حضرت سلمان فارسی ؓ جو پہلے نصرانی تھے وہ بھی ایمان لے آئے۔ پھر چند سال کے بعد یہ ہوا کہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ (جو ہجرت کرنے والوں کی جماعت میں حبشہ چلے گئے تھے اور انہوں نے ہی وہاں کے بادشاہ نجاشی اور اس کے درباریوں کے سامنے سورة مریم پڑھی تھی) کے ساتھ بتیس آدمی حبشہ سے آئے ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا، حق ظاہر ہونے کے بعد ان لوگوں نے تامل نہیں کیا اور ایمان قبول کرلیا۔ انہوں نے یوں کہا کہ ہم تو پہلے ہی سے اس بات کو مانتے تھے کہ نبی آخر الزماں ﷺ مبعوث ہوں گے اور ان پر کتاب نازل ہوگی۔ چوتھی آیت میں مؤمنین اہل کتاب کے بارے میں فرمایا کہ انہیں ان کے صبر کرنے کی وجہ سے دہرا اجر ملے گا۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کے لیے دو اجر ہیں ایک اہل کتاب میں سے وہ شخص جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد رسول اللہ پر ایمان لایا اور دوسرا وہ مملوک غلام جس نے اللہ کا حق ادا کیا (فرائض و واجبات کی پابندی کی اور جو احکام اس سے متعلق تھے ان کو ادا کرتا رہا) اور اس نے اپنے آقاؤں کا حق بھی ادا کیا۔ اور تیسرا وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی تھی اس سے وہ جماع کرتا تھا پھر اسے اس نے ادب سکھایا اور اچھی طرح ادب سکھایا اور اسے تعلیم دی اور چھی طرح تعلیم دی۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلیا۔ سو اس شخص کے لیے (بھی) دو اجر ہیں۔ (رواہ البخاری ص 20: ج) حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب میں سے جو شخص اسلام قبول کرے اس کے لیے ایک اجر اپنے نبی پر ایمان لانے کا اور ایک اجر خاتم الانبیاء ﷺ پر ایمان لانے کا ہے۔ آیت میں جو لفظ (بِمَا صَبَرُوْا) ہے اس میں یہ بتایا کہ صبر کرنے کی وجہ سے انہیں دہرا اجر ملے گا۔ صبر میں سب کچھ داخل ہے پہلے نبی کی طرف سے جو اعمال خیر پہنچے تھے ان پر عمل کرنا اور خاتم الانبیاء ﷺ کی طرف سے جو اعمال ملے ان پر عمل کرنا اور ایمان قبول کرنے کے بعد یہود و نصاریٰ سے جو تکلیفیں پہنچیں مال اور جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑا صبر میں یہ سب چیزیں شامل ہیں۔
Top