Baseerat-e-Quran - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
ہم نے اس کلام کو ( ان لوگوں کے لئے) تھوڑا تھوڑا بھیجا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں
لغات القرآن : آیت نمبر 51 تا 55 : وصلنا (ہم نے ایک دوسرے سے ملایا) یئو تون ( وہ دیئے گئے ہیں) ‘ مرتین (مرۃ) دو مرتبہ ‘ یدرءون ( وہ دور کرتے ہیں) ‘ الحسنۃ (بھلائی ۔ خیر) السیئۃ (برائی) اللغو (بیکار۔ فضول) اعرضوا (انہوں نے منہ پھیرلیا) ‘ لانبتغی (ہم نہیں چاہتے) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 55 : قرآن کریم میں اس مضمون کو کئی مرتبہ بیان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ اپنی دنیا اور آخرت کو بنانا اور سدھارنا ہوتا ہے وہ طرح طرح کے بہانے اور اعتراضات نہیں کرتے لیکن جو بد نصیب لوگ ہیں ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر ایمان اور عمل صالح سے بھاگنے کے لئے بےتکی اور غیر سنجیدہ باتیں کرتے ہیں۔ چناچہ کفار مکہ نبی کریم ﷺ سے ہر روز کوئی نہ کوئی سوال کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو چند روز میں تو ریت کی تختیاں دے دی گئی تھیں آپ کو پورا قرآن کریم کسی کتابی شکل میں ایک ہی وقت میں کیوں نہ دیا گیا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کو موقع کی مناسبت سے تھوڑا تھوڑا اس کئے نازل کیا جا رہا ہے تاکہ اچھی طرح سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی سہولت مل جائے اور اس پر پورا دھیان دیا جاسکے۔ فرمایا کہ قرآن کریم سے پہلے جن لوگوں کو اللہ کی کتابیں دی گئی تھیں ان میں بعض لوگ تو وہ ہیں جو جانتے بوجھتے حق و صداقت کا راشتہ اختیار نہیں کرتے کیونکہ اس سچائی کے راستے پر چلنے سے ان کے دنیاوی مفادات پر چوٹ پڑتی ہے لیکن ان ہی میں سے بعض وہ لوگ بھی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ صرف اس کا اقرار کرتے ہیں بلکہ ان کی زبانوں پر یہی ہوتا ہے کہ ہماری کتابوں میں جو پیش گوئیاں کی گئے تھیں ان کی بنیادپرہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بالکل برحق کلام ہے اور ہمارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اور ان باتوں پر ہمیں پوری طرح یقین ہے اور ہم اس کے ” مسلم “ یعنی فرماں بردار ہیں۔ فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کی نیکیوں اور صبر پر دوگنا اجر عطا کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ لوگ گذشتہ انبیاء اور ان کی باتوں پر بھی یقین رکھتے ہیں اور نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم پر بھی انہیں یقین کامل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو برائی کا جواب شرافت سے دیتے ہیں اللہ نے ان کو جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ جب وہ کسی لغو اور فضول بات کو سنتے ہیں تو نہ صرف اس سے منہ پھیر لیتے ہیں بلکہ فضول باتیں اور اعتراض کرنے والوں سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تم جو کچھ کرتے ہو وہ اعمال تمہارے لئے ہیں اور تم ان کے ذمہ دار ہو۔ ہم جہالت کی باتوں میں الجھنا نہیں چاہتے۔ تم پر سلامتی ہو۔ ان آیات کے پس منظر میں علماء مفسرین نے لکھا ہے کہ جب کچھ صحابہ کرام ؓ نے ملک حبش کی طرف ہجرت فرمائی اور وہاں کے عیسائیوں کے سامنے دین اسلام کی سچائی آگئی تو وہ اس کی پوری تحقیق کرنے کے لئے مکہ مکرمہ آئے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ سوالات کئے اور قرآن کریم کی اس عالم گیر تحریک کا غور سے جائزہ لیا۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہر گئے۔ انہوں نے اس کلام کی تصدیق کی اور انہوں نے ایمان قبول کرلیا۔ جب ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو اس کا علم ہوا تو اس نے ان سب لوگوں کو جو ایمان لے آئے تھے بہت برا بھلا کہا اور ملامت کی اور کہنے لگا کہ تم حالات معلوم کرنے آئے تھے مگر تم نے تو بہت جلد بازی کی اور ایمان بھی قبول کرلیا۔ ایمان قبول کرنے والوں نے کہا کہ جب سچائی ہمارے سامنے آچکی ہے تو ہم ایمان لانے میں دیر کیوں کریں۔ لہذا ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ۔ ہم جاہلانہ باتوں میں الجھنا نہیں چاہتے۔ تم پر سلامتی ہو۔ ابوجہل کو اس جواب کی بالکل توقع نہ تھی اور وہ تلملا کر رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی جو اپنے ایمان پر صبر و تحمل سے جم گئے تھے اور انہوں نے کفار مکہ کے منہ پر جوتا مار دیا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لیے دوگنا اجر وثواب ہے کیونکہ وہ حجرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایمان لائے تھے اور نبی مکرم ﷺ پر بھی ان کو مکمل ایمان و یقین حاصل ہوچکا تھا۔ ان کی شان یہ ہے کہ انہوں نے کفار مکہ کی شرارتوں کا جواب نہایت شرافت سے دیا ہے اور دور دراز جگہ سے آکر اللہ کی راہ میں خرچ کر کے انہوں نے اللہ کے نزدیک ایک اہم مقام حاصل کرلیا ہے۔ ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب انہوں نے ابو جہل کی لغو باتوں کو سنا تو ان باتوں سے منہ پھیرلیا اور کہا کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ۔ تم پر سلامتی ہو۔ ہم جہالتوں کی باتوں میں الجھنا نہیں چاہتے۔
Top