Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم پے در پے بھیجتے رہے ہیں ان کو اپنے کلام تاکہ وہ دھیان میں لائیں۔
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَـهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ ، وصلنا، توصیل سے مشتق ہے جس کے اصل لغوی معنے رسی کے تاروں میں اور تار ملا کر اس کے مضبوط کرنے کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ قرآن حکیم میں حق تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری رکھا اور بہت سے نصیحت کے مضامین کا بار بار تکرار بھی کیا گیا تاکہ سننے والے متاثر ہوں۔
تبلیغ و دعوت کے بعض آداب
اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تبلیغ کا اہم پہلو یہ تھا کہ وہ حق بات کو مسلسل کہتے اور پہنچاتے ہی رہتے تھے۔ لوگوں کا انکار و تکذیب ان کے اپنے عمل اور اپنی لگن میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتا تھا بلکہ وہ حق کو اگر ایک مرتبہ نہ مانا گیا تو دوسری مرتبہ، پھر بھی نہ مانا گیا تو تیسری چوتھی مرتبہ برابر پیش کرتے ہی رہتے تھے کسی کے دل میں ڈال دینا تو کسی ناصح ہمدرد کے بس میں نہیں مگر اپنی کوشش کو بغیر کسی تکان اور اکتاہٹ کے جاری رکھنا جو ان کے قبضہ میں تھا اس کو مسلسل انجام دیتے۔ آج بھی تبلیغ و دعوت کے کام کرنے والوں کو اس سے سبق لینا چاہئے۔
Top