Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 37
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا١ۙ وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّا١ؕۚ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ١ۙ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا١ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا١ؕ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ
فَتَقَبَّلَهَا : تو قبول کیا اس کو رَبُّهَا : اس کا رب بِقَبُوْلٍ : قبول حَسَنٍ : اچھا وَّاَنْۢبَتَهَا : اور پروان چڑھایا اس کو نَبَاتًا : بڑھانا حَسَنًا : اچھا وَّكَفَّلَهَا : اور سپرد کیا اس کو زَكَرِيَّا : زکریا كُلَّمَا : جس وقت دَخَلَ : داخل ہوتا عَلَيْهَا : اس کے پاس زَكَرِيَّا : زکریا الْمِحْرَابَ : محراب (حجرہ) وَجَدَ : پایا عِنْدَھَا : اس کے پاس رِزْقًا : کھانا قَالَ : اس نے کہا يٰمَرْيَمُ : اے مریم اَنّٰى : کہاں لَكِ : تیرے لیے ھٰذَا : یہ قَالَتْ : اس نے کہا ھُوَ : یہ مِنْ : سے عِنْدِ : پاس اللّٰهِ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَرْزُقُ : رزق دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہے بِغَيْرِ حِسَابٍ : بےحساب
سو اس کے رب نے قبول فرما لیا اس بچی کو اچھی طرح کا قبول فرمانا اور اس کو بڑھانا اور اس کو زکریا کی کفالت میں دے دیا۔ جب زکریا داخل ہوئے ان پر محراب میں تو پایا ان کے پاس رزق، تو انہوں نے کہا کہ اے مریم کہاں سے ہے یہ تیرے لیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اللہ کے پاس سے ہے۔ بیشک اللہ رزق دیتا ہے جس کو چاہے بےحساب۔
حضرت مریم کا نشوونما اور حضرت زکریا کی کفالت : حضرت مریم کی والدہ کا قول ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّ کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا) کہ اس کے رب نے اس بچی کو قبول فرما لیا، نذر کو ہدیہ سے تشبیہ دی۔ اور ان کی نذر سے راضی ہونے کو قبول کرنے سے تعبیر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور بہت خوبی کے ساتھ قبول فرمایا۔ علماء تفسیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب حضرت مریم پیدا ہوگئیں تو ان کی والدہ جن کا نام حنہ تھا ان کو کپڑے میں لپیٹ کر بیت المقدس میں لے گئیں اور وہاں جو عبادت میں مشغول رہنے والے حضرات مقیم تھے ان کے سامنے رکھ دیا (اور پوری کیفیت بتادی کہ میری یہ نذر تھی اور لڑکی پیدا ہوئی ہے) زمانہ حمل میں لڑکی کے والد جناب عمران کی وفات ہوچکی تھی وہ وہاں کے امام بھی تھے۔ وہ ہوتے تو پرورش کے زیادہ مستحق تھے۔ مریم کی والدہ نے مریم (عابدہ) نام رکھا جس میں یہ اشارہ ہے کہ میں اپنی نذر پر اب بھی قائم ہوں۔ خدمت کے لیے نہیں تو عبادت ہی کے لیے سہی اسی نذر کی وجہ سے وہ بیت المقدس کے مقیمین کے پاس لے گئیں۔ (روح المعانی وبیان القرآن) ان حضرات نے بچی کی کفالت کے سلسلے میں منافست اختیار کی اور ہر ایک چاہتا تھا کہ میں اس کی پرورش کروں انہیں حضرات میں حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی تھے جو ان سب کے سردار تھے انہوں نے فرمایا کہ میں اس کی پرورش کا سب سے زیادہ حقدار ہوں اس لیے کہ اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے وہ حضرات کہنے لگے کہ ہم سب آپس میں قرعہ ڈالیں گے جس کا نام نکل آیا وہی زیادہ حقدار ہوگا۔ چناچہ انہوں نے اپنے قلم منگوائے اور ان کو جمع کرکے ڈھانک دیا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ایک نابالغ بچے سے فرمایا کہ تو ہاتھ ڈال کر ایک قلم نکال لے اس نے نکالا تو حضرت زکریا (علیہ السلام) کا قلم نکل آیا۔ لہٰذا انہوں نے حضرت مریم [ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ (اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ چند صفحات کے بعد آئے گی) حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں مریم [ رہنے لگیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کا نشوونما خوب اچھے طریقہ سے کیا جو دوسرے بچوں سے مختلف تھا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو علیحدہ ایک محراب میں رکھ چھوڑا تھا۔ محراب سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ بیت المقدس میں ایک کمرہ ان کے لیے مخصوص کردیا تھا یہ کمرہ بلندی پر تھا۔ جس میں زینہ سے چڑھتے تھے اور بعض حضرات نے محراب سے مطلق مسجد مراد لی ہے اور بعض حضرات نے محراب کا معروف معنی مراد لیا ہے۔ حضرت مریم کے پاس غیب سے پھل آنا : بہر حال وہ بیت المقدس میں رہتی رہیں اور نشوونما ہوتا رہا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی طور پر ان کو پھل ملتے رہے، گرمی کے پھل سردی کے زمانہ میں اور سردی کے پھل گرمی کے زمانہ میں ان کے پاس ملتے تھے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ان کا بہت دھیان رکھتے تھے۔ اور ان کے سوا کوئی شخص حضرت مریم [ کے پاس نہیں جاسکتا تھا جب وہ ان کے پاس جاتے تو دیکھتے تھے کہ غیر موسم کے پھل رکھے ہوئے ہیں اول تو دروازہ بند ہوتے ہوئے اندر پھلوں کا پہنچ جانا پھر غیر موسم کے پھل ہونا۔ یہ دونوں باتیں بڑے تعجب کی تھیں حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان سے سوال فرمایا کہ یہ پھل کہاں سے آئے انہوں نے جواب دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ (اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بےحساب رزق عطا فرماتا ہے۔ اس آیت سے کرامات اولیاء کا ثبوت ہوتا ہے۔ (روح المعانی)
Top