Anwar-ul-Bayan - Al-Ahzaab : 62
سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا
سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور فِي الَّذِيْنَ : ان لوگوں میں جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلُ ۚ : ان سے پہلے وَلَنْ تَجِدَ : اور تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّةِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَبْدِيْلًا : کوئی تبدیلی
جو لوگ پہلے گزرے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنا یہی دستور رکھا ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کے دستور میں رد و بدل نہ پائیں گے۔
(سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ) اللہ نے ان لوگوں میں طریقہ مقرر فرما دیا ہے جو پہلے گزر چکے ہیں کہ فسادیوں کو قتل کیا جاتا رہے گا اور وہ جلا وطن کیے جاتے رہیں گے اور جہاں کہیں بھی ہوں گے ملعون و ماخوذ اور مقتول ہوتے رہیں گے۔ (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا) اور آپ اللہ کے طریقہ یعنی عادت مستمرہ میں تبدیلی نہ پائیں گے۔ چونکہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق تکوینی فیصلے ہونا امور فرغیہ میں سے نہیں ہیں اس لیے اس میں نسل کا احتمال نہیں۔ 1 ؂ وھم قوم کان فیھم ضعف ایمانھم وقلۃ ثبات علیہ عماھم علیہ من التزلزل وما یستتبعہ ما لا خیر فیہ۔ (روح المعانی) اور وہ ایسی قوم ہے کہ جس میں ایمان کی کمزوری ہے اور نہ ہی ایمان پر استقامت ہے اس لیے کہ وہ متزلزل ہیں اور ان کے علاوہ ان میں بھی غیر ایمانی رویے ہیں۔ صاحب روح المعانی نے جو اقوال لکھے ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ منافقین ایذا کے کاموں سے رک گئے تھے اور جو وعید نازل ہوئی تھی اس کے ڈر سے اپنے کاموں سے باز آگئے تھے لہٰذا اغراء اور اخراج اور قتل کا وقوع نہیں ہوا، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو تنبیہ کی گئی تھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور مسجد سے نکال کر انہیں ذلیل کیا گیا اور ان پر نماز جنازہ پڑھنے سے بھی آنحضرت ﷺ کو منع فرما دیا اور اس طرح وہ سب کی نظروں میں ملعون ہوگئے۔ یہ تو منافقین کے ساتھ ہوا البتہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا گیا یہ قبیلہ بنی نضیر تھا، اور یہود کے قبیلہ بنی قریظہ کے بالغ مردوں کو قتل کردیا گیا۔ (خوف و ہراس کی خبریں اڑانے میں یہود کا زیادہ حصہ تھا۔ )
Top