Anwar-ul-Bayan - Faatir : 43
اِ۟سْتِكْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَكْرَ السَّیِّئِ١ؕ وَ لَا یَحِیْقُ الْمَكْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ١ؕ فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ١ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا١ۚ۬ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا
اسْتِكْبَارًا : اپنے کو بڑا سمجھنے کے سبب فِي الْاَرْضِ : زمین (دنیا) میں وَمَكْرَ : اور چال السَّيِّئُ : بری وَلَا يَحِيْقُ : اور نہیں اٹھتا (الٹا پڑتا) الْمَكْرُ : چال السَّيِّئُ : بری اِلَّا : صرف بِاَهْلِهٖ ۭ : اس کے کرنے والے پر فَهَلْ : تو کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صرف سُنَّتَ : دستور الْاَوَّلِيْنَ ۚ : پہلے فَلَنْ تَجِدَ : سو تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّتِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَبْدِيْلًا ڬ : کوئی تبدیلی وَلَنْ تَجِدَ : اور تم ہرگز نہ پاؤ گے لِسُنَّتِ اللّٰهِ : اللہ کے دستور میں تَحْوِيْلًا : کوئی تغیر
زمین میں تکبر کرنے اور بری تدبیریں اختیار کرنے کی وجہ سے، اور بری تدبیر کا وبال اسی پر ہے جو یہ کام کرے، سو کیا وہ پرانے لوگوں کے دستور کا انتظام کر رہے ہیں، سو آپ ہرگز اللہ کے دستور میں تبدیلی نہ پائیں گے اور آپ ہرگز اللہ کے دستور میں منتقل ہونا نہ پائیں گے۔
قریش مکہ نے قسم کھا کر کہا کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا آگیا تو ہم دوسروں سے بڑھ کر ہدایت والے ہوں گے، پھر جب ڈرانے والا آگیا تو متکبر بن گئے اور حق سے منحرف ہوگئے قریش مکہ مشرک تھے، تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے وہاں نصاریٰ کی حکومت تھی اور یہودیوں کا بھی انہیں کچھ علم تھا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ ان دونوں قوموں نے اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کی ہے تو کہنے لگے کہ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو ان کے پاس اللہ کے رسول آئے تو انہیں جھٹلا دیا ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس کوئی رسول آگیا تو ان لوگوں سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں گے، یہ بات انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے کہی تھی، پھر جب آپ کی بعثت ہوئی تو نہ صرف یہ کہ آپ کی تکذیب کی بلکہ آپ کی تکذیب کی اور تنفر ہی کو اختیار کرلیا، اور نفرت اختیار کرنے کا باعث یہ تھا کہ ایمان قبول کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے جو سراسر تکبر تھا، یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے خلاف بری بری تدبیریں کرتے تھے، پھر جو تدبیریں کیں وہ خود الٹی انہیں کے گلے پڑیں، جن حضرات کو اسلام سے روکتے تھے ان کے روکنے میں کامیاب نہ ہوئے اور یہ روکنے والے غزوہ بدر میں مقتول ہوئے اور سارا تکبر دھرا رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بطور قاعدہ کلیہ اس کو یوں بیان فرمایا : (وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ ) (اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے) یہ تکوینی قانون ہے کہ جو شخص کسی کو دکھ دینے کی تدبیریں کرے گا وہ خود اسی پر پڑے گی، عموماً ایسا دیکھا جاتا رہا ہے اور اس کے بارے میں یہ جملہ مشہور ہوگیا ہے : (من حفر بئر لاخیہ فقد وقع فیہ) (جو شخص اپنے بھائی کے لیے کنواں کھودے گا وہ خود اسی میں گرے گا۔ ) (فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ ) (سو کیا وہ پرانے لوگوں کے دستور کا انتظام کر رہے ہیں) (فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا) (سو آپ ہرگز اللہ کے دستور میں تبدیلی نہ پائیں گے) (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا) (اور آپ ہرگز اللہ کے دستور میں منتقل ہونا نہ پائیں گے) یعنی اللہ کا یہ دستور ہے کہ کافروں پر عذاب ہوگا خواہ دنیا و آخرت دونوں میں ہو، خواہ صرف آخرت میں ہو، اور یہ بھی دستور ہے کہ جو عذاب کا مستحق ہو اسی کو عذاب ہوتا ہے، ایسا نہیں کہ انہیں چھوڑ کر کسی دوسری قوم کو عذاب ہوجائے جو مستحق عذاب نہ ہو، ان کا ڈھنگ اور طریقہ کار ایسا ہے جیسے عذاب کے منتظر ہوں اور وجہ اس کی عناد اور باطل پر اصرار ہے، چونکہ عذاب میں مبتلا ہونے کا یقین نہیں اس لیے عذاب کے انتظار میں بیٹھے ہیں، انتظار کرنے سے عذاب سے حفاظت نہ ہوجائے گی آنے والا عذاب آکر رہے گا۔
Top