Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 8
وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ اُولُوا الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنُ فَارْزُقُوْهُمْ مِّنْهُ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَاِذَا : اور جب حَضَرَ : حاضر ہوں الْقِسْمَةَ : تقسیم کے وقت اُولُوا الْقُرْبٰي : رشتہ دار وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم وَالْمَسٰكِيْنُ : اور مسکین فَارْزُقُوْھُمْ : تو انہیں کھلادو (دیدو) مِّنْهُ : اس سے وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی
اور جب تقسیم کرنے کے موقعہ پر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین حاضر ہوجائیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دے دو اور ان سے اچھے طریقہ پر بات کرو
یتیموں کا مال کھانے پر سخت و عید اور ان کے مالوں کی نگرانی کا حکم بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ میراث کا کام تقسیم ہونے لگے تو عزیز رشتہ دار اور یتیم مسکین بھی حاضر ہوجاتے ہیں جن کو میراث میں شرعاً حصہ نہیں پہنچتا اگر یہ لوگ ایسے موقعہ پر حاضر ہوجائیں تو بالغ ورثا اپنے حصوں میں سے کچھ دے دیں تاکہ ان کی دلداری ہوجائے اور ان کو مناسب طریقہ پر نرمی کے ساتھ اچھے الفاظ میں سمجھا دیں کہ شرعاً تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے تم کو میراث میں سے نہ دینا کوئی ظلم زیادتی کی بات نہیں ہے اور یہ ہم اپنے پاس سے پیش کر رہے ہیں، آپ حضرات قبول کرلیں اور دلگیر نہ ہوں اللہ کی قضا و قدر اور اس کی شریعت پر راضی رہیں، پھر یہ ارشاد فرمایا کہ جن لوگوں کے قبضہ میں مرنے والے کا مال آجائے وہ لوگ مال کو خود ہی لے کر نہ بیٹھ جائیں شرعی حصہ داروں کو ان کے حصے دے کر شرعی فریضہ سے سبکدوش ہوجائیں، ان میں ضعیف بھی ہوتے ہیں محتاج بھی، یتیم بھی اور چھوٹے بچے بھی، اگر ان کا حصہ نہ دیا یا حصہ دینے میں دیر لگائی تو ان کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا یہ غور کریں کہ اگر ہم مرجاتے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ جاتے تو ہماری کیا خواہش ہوتی۔ اپنی اولاد کے بارے میں یہ سوچتے کہ پورا پورا حصہ ملے تاکہ ضائع ہوجانے سے بچ جائیں۔ یہی بات دوسروں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے بارے میں سوچنی چاہیے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میراث صحیح طریقہ پر تقسیم کرو اور بچوں کا مال ایسے ولی یا وصی کے سپرد کرو جو مال کو ضائع نہ کر دے خیانت نہ کرے اور بچوں پر مناسب طریقہ پر خرچ کرے اور جب بالغ ہوجائیں تو ان کو دے دے عملی طور پر بھی بچوں کو مطمئن کر دے اور ان کا حصہ دیدے تاکہ حق بحق دار سید پر عمل ہوجائے اور قولی طور پر بھی ایسی باتیں کرے جو مناسب ہوں جن میں ان کی دلداری ہو۔ پھر فرمایا کہ جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ دنیا ہی میں سب کچھ ہے، کھایا پیا یہیں برابر ہوجائے گا، خوب سمجھ لیں کہ آگے آنے والی گھاٹی بہت سخت ہے یوم آخرت میں حساب و کتاب ہے یتیموں کے مال کھا جانا آسان بات نہیں۔ یہاں وہ ضعیف ہیں معصوم بچے ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن بار گاہ خداوندی میں جب پیشی ہوگی تو اس حرام خوری کی سزا بھگتنی ہوگی یتیم کا مال کھا رہے ہیں، بظاہر روٹی سے پیٹ بھر رہے ہیں لیکن حقیقت میں اپنے پیٹ میں آگ کے انگارے بھر رہے ہیں اور پھر قیامت کے دن دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ جو لوگ ورثہ کا مال تقسیم نہیں کرتے یتیموں کا حق نہیں دیتے اور جو لوگ یتیم خانے کھول کر بیٹھے ہوتے ہیں یتیموں کے نام سے چندے کرتے ہیں اور ان پر ذرا بہت خرچ کرکے خود ہی کھا جاتے ہیں۔ آیت کے مضمون پر بار بار غور کریں حقیقت یہ ہے کہ میراث کے مال تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے گھر گھر یتیم کا مال کھایا جا رہا ہے اور کھانے والوں کو ذرا اس طرف توجہ نہیں۔
Top