Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 17
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ١۪ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى١ۚ وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ : سو تم نے نہیں قتل کیا انہیں وَلٰكِنَّ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ قَتَلَهُمْ : انہیں قتل کیا وَ : اور مَا رَمَيْتَ : آپ نے نہ پھینکی تھی اِذْ : جب رَمَيْتَ : آپ نے پھینکی وَلٰكِنَّ : اور بلکہ اللّٰهَ : اللہ رَمٰى : پھینکی وَلِيُبْلِيَ : اور تاکہ وہ آزمائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مِنْهُ : اپنی طرف سے بَلَآءً : آزمائش حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
سو تم نے ان کو نہیں مارا لیکن اللہ نے ان کو مارا، اور تو نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی، اور تاکہ کرے ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوف احسان، بیشک اللہ ہے سننے والا جاننے والا۔
بالکل مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں یہ فتح عظیم مسلمانوں کو حاصل ہوئی میدان جنگ سے واپس آکر آپس میں گفتگوئیں شروع ہوئیں صحابہ کرام اپنے اپنے کارنامے ایک دوسرے سے بیان کرنے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ، جس میں ان کو یہ ہدایت دی گئی کہ اپنی سعی و عمل پر ناز نہ کرو یہ جو کچھ ہوا وہ صرف تمہاری محنت و کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خالص حق تعالیٰ کی نصرت و امداد کا ثمرہ تھا۔ جو دشمن تمہارے ہاتھوں قتل ہوئے ان کو درحقیقت تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قتل کیا ہے۔
اسی طرح رسول کریم ﷺ کو خطاب کرکے ارشاد ہوا۔ (آیت) وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى۔ یعنی یہ مٹھی کنکریوں کی جو آپ نے پھینکی وہ درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پھینکنے کا یہ نتیجہ کہ لشکر دشمن کے ہر فرد کی آنکھوں میں پہنچ کر سب کو سراسیمہ کردے یہ آپ کے پھینکنے کا اثر نہیں تھا بلکہ حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ صورت پیدا فرمائی۔
مارمیت اذ رمیت گفت حق کا رما بر کارہا دارد سبق
غور کیا جائے تو مسلمانوں کے لئے جہاد کی فتح و کامیابی سے زیادہ قیمتی یہ ہدایت تھی جس نے ان کے ذہنوں کو اسباب سے پھیر کر مسبب الاسباب سے وابستہ کردیا اور اس کے ذریعہ اس فخر و عجب کی خرابی سے بچا لیا جس کے نشہ میں عموما فاتح اقوام مبتلا ہوجایا کرتی ہیں۔ اور اس کے بعد یہ بتلایا کہ فتح و شکست ہمارے حکم کے تابع ہیں۔ اور ہماری فتح و نصرت ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اطاعت گزار ہوں۔ (آیت) وَلِيُبْلِيَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ مِنْهُ بَلَاۗءً حَسَـنًا، یعنی یہ فتح عظیم ہم نے اس لئے دی کہ مومنین کو ان کی محنت کا پورا صلہ دے دے۔ بلاء کے لفظی معنی امتحان کے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا امتحان کبھی مصیبت و مشقت میں مبتلا کرکے ہوتا ہے اور کبھی راحت و دولت دے کر۔ بلاء حسن اس امتحان کو کہا گیا ہے جو راحت، دولت اور فتح و نصرت دے کرلیا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس کو ہمارا انعام سمجھ کر شکر گزار ہوتے ہیں یا اس کو اپنی ذاتی قابلیت کا اثر سمجھ کر فخر و ناز میں مبتلا ہوجاتے اور اپنے عمل کو برباد کردیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کسی کے فخر و ناز کی کوئی گنجائش نہیں ہے بقول مولانارومی
فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ جز شکستہ می نگیرد فضل شاہ
Top