Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 30
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ شخص جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ مِّثْلَ : تم پر۔ مانند يَوْمِ الْاَحْزَابِ : (سابقہ) گروہوں کا دن
اور اس شخص نے کہا کہ جو ایمان لایا تھا کہ اے میری قوم میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر سابقہ جماعتوں جیسا دن نہ آپڑے
بندہ مومن کا سابقہ امتوں کی بربادی کو یاد دلانا اور قیامت کے دن کی بدحالی سے آگاہ کرنا بندہ مومن نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے تہدید اور تخویف سے بھی کام لیا اور یوں کہا کہ اے میری قوم تم جو حق کے انکار پر اور اس شخص کی تکذیب پر تلے ہوئے ہو تمہارا یہ رویہ خود تمہارے حق میں صحیح نہیں ہے تم سے پہلے بھی قومیں گزری ہیں ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے تو قوموں نے ان کی تکذیب کی اور برباد ہوئے اس طرح کی ہلاک شدہ جو جماعتیں گزری ہیں ان میں سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی گزری ہے عاد اور ثمود بھی اس دنیا میں آئے اور بسے یہ سب قومیں حق کو ٹھکرانے کی وجہ سے ہلاک اور برباد ہوئیں ان کے بعد بہت سی قومیں آئیں جنہوں نے اپنے اپنے نبیوں کو جھٹلایا اور جھٹلانے کا مزہ پایا یعنی ہلاکت اور بربادی کے گھاٹ اتر گئے اللہ تعالیٰ نے جن قوموں کو ہلاک کیا ہے ان لوگوں کی بری حرکتوں کی وجہ سے ہلاک فرمایا ہے وہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ نہیں فرماتا۔ بندہ مومن نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید یوں کہا کہ دیکھو تمہیں ہمیشہ دنیا میں نہیں رہنا ہے مرنا بھی ہے قیامت کے دن پیشی بھی ہونی ہے وہاں حساب کتاب ہوگا، فیصلے ہوں گے اور پکارا جائے گا (اسی پکارے جانے کی وجہ سے یوم القیامہ کو یوم التناد کے نام سے موسوم کیا، اس دن بہت سی ندائیں ہوں گی) پہلی پکار نفخ صور کے وقت ہوگی جسے (یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِیْ مِنْ مَّکَانٍ قَرِیْبٍ ) میں بیان فرمایا اور میدان حشر میں مختلف قسم کے لوگ ہوں گے انہیں ان کے اپنے اپنے پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا جسے (یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ ) میں بیان فرمایا ہے اور جب اہل ایمان کو داہنے ہاتھ میں کتاب دی جائے گی تو پکار اٹھیں گے (ھَآؤُمُ اقْرَءُ وْا کِتٰبِیَہْ ) نیز اہل جنت دوزخ والوں کو اور اہل دوزخ جنت والوں کو اور اہل اعراف بہت سے لوگوں کو پکاریں گے جیسا کہ سورة اعراف رکوع 5 اور 6 میں ذکر فرمایا ہے۔ جب پکار پڑے گی تو تم پشت پھیر کر چل دو گے یعنی محشر سے دوزخ کی طرف روانہ ہوجاؤ گے دوزخ سے بھاگنا چاہو گے تو بھاگ نہ سکو گے اس میں داخل ہونا ہی پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ جب فیصلہ فرما دے گا کہ تمہیں دوزخ میں جانا ہی ہے تو کوئی بھی چیز تمہیں عذاب سے نہیں بچاسکتی اور اس کے حکم کو نہیں ٹال سکتی۔ دیکھو تم راہ حق قبول کرلو ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری گمراہی کا فیصلہ ہو ہی چکا ہے تو پھر تمہیں کوئی ہدایت دینے والا نہیں (وَّمَنْ یُّضْلِلْ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ ) بندہ مومن نے اپنے مخاطبین کی ہدایت سے ناامید ہو کر ایسا کہا۔
Top