Mazhar-ul-Quran - Al-Ghaafir : 30
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ مِّثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِۙ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ شخص جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ مِّثْلَ : تم پر۔ مانند يَوْمِ الْاَحْزَابِ : (سابقہ) گروہوں کا دن
اور وہ1 بولا جو ایمان لایا تھا : " اے میری قوم ! مجھ کو تمہاری نسبت اگلی جماعتوں کے دن کا سا خوف ہے۔
(ف 1) اس مسلمان نے کہا جو قوم فرعون میں سے تھا کہ اے لوگو مجھ کو یہ خوف ہے کہ کہیں تم پر ایسا عذاب نہ آجائے جیسا کہ اگلی جماعتوں پر آیا ، جیسے قوم نوح کا حال ہوا تھا اور قوم عاد اور ثمود کا اور ان لوگوں کا جو ان کے بعد گزرے، دیکھو ان لوگوں کے سامنے پیغمبر ان برحق نے دعوی نبوت کیا، انہوں نے جھٹلایا اس کا نتیجہ یہ پایا کہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہوئے کسی پر کسی قسم کا عذاب آیا کسی پر کسی قسم کا، پس اس لیے تم سے کہتا ہوں کہ ذراسوچ سمجھ کر کام کرو، اگر ان کا قول سچ ہوا، یعنی یہ اگر پیغمبر برحق ہوئے تو یاد رکھنا کہ سخت بلاؤں میں مبتلا ہوجاؤ گے اپنے کیے کی سزا پاؤ گے دنیا میں برباد ہوگی، اور دین بھی برباد ہوجائے گا اصل بات یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسابھرو گے اللہ تعالیٰ تو کسی پر ظلم کرتا ہی نہیں ظلم کرتا تو کیساظم کا قصد بھی نہیں کرتا، ہاں وہ عادل ہے ظالموں کو ظلم کی سزا ضرور دیتا ہے اگر تم ظلم کرو گے تو اپنے ہاتھ سے اپنے پہاڑوں پر کلہاڑی مارو گے ، اسی مسلمان نے یہ بھی کہا کہ اے لوگو میں قیامت کے دن سے خوف کھاتا ہوں کہ اس روز طرح طرح کی پکاریں مچی ہوں گی ، ہر شخص اپنے سرگروہ کے ساتھ اور ہر جماعت اپنے امام کے ساتھ بلائی جائے گی جنتی دوزخیوں کو اور دوزخیوں جنتیوں کو پکاریں گے نیک بختوں اور بدبختوں کو پکارا جائے گا کہ فلاں، سعید ہوا، اور اب کبھی شقی نہ ہوگا اور فلاں شقی ہوگیا اب کبھی سعید نہ ہوگا اور جس وقت موت ذبح کی جائے گی اس وقت ندا کی جائے گی کہ اہل جنت کو اب ہمیشگی ہے موت نہیں ، اور اہل دوزخ کو اب ہمیشگی ہے موت نہیں آگے فرمایا کہ تم سب کو نشیب و فراز پوری طرح سمجھا چکا، اس پر بھی تم نہ مانو تو سمجھ لو کہ تمہاری عناد اخروی کی شامت سے اللہ تعالیٰ نے ارادہ ہی کرلیا، کہ تم کو تمہارے پسند کردہ غلطی اور گمراہی میں پڑا رہنے دے، پھر ایسے گمراہ کے سمجھنے کی کیا توقع ہوسکتی ہے اس ایماندار شخص نے اپنی نصیحت میں یہ بھی کہا کہ تم پہلے بھی ایسا ہی کرچکے ہو جب تمہاری ہی قوم میں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پیغمبری ملی، اور وہ معجزات لے کر تمہارے پاس آئے تو انہیں بھی تم نے نہ مانا ان کی نبوت میں بھی تمہیں شک ہی رہا، یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے بعد بھی تم نے کفر کیا، اور کہا کہ نہ یوسف (علیہ السلام) رسول تھے، نہ اب بعد میں کوئی رسول آئے گا اس سے بڑھ کر گمراہی اور سرکشی کیا ہوگی، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے مردہ گھوڑے کو زندہ کردکھایا چھوٹے سے بچے نے ان کی پاکدامنی پر گواہی دی، ایسے ایسے معجزوں کو بھی جھوٹا سمجھا، اب اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے یدبیضا اور عصا وغیرہ معجزات باہر دیکھتے ہو اور جھٹلاتے ہو یہ سخت گمراہی ہے جو لوگ اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں، اور یوں بغیر سمجھے بوجھے بغیر حجت کے حجتی بنا سراسر حماقت ہے اور جو رسول و قرآن کو جھٹلاتے ہیں قیامت کے دن ان پر خدا کا بہت ہی بڑ اغصہ ہوگا، اور یہ اللہ کے نزدیک اور اللہ کے ماننے والوں کے نزدیک، بہت بڑی ہلاکت کی بات ہے اور سخت نازیبا ہے اللہ تعالیٰ ہر متکبر ظالم کے دل پر مہر بھی کردیتا ہے جس کی وجہ سے حق بات ماننے کی دل میں صلاحیت نہیں ہوتی، اس میں کافروں کو تنبیہ ہے کہ قوم فرعون پر کچھ موقف نہیں تمہارے دلوں پر بھی مہر ہوگئی ہے جیسا ان کا انجام خراب ہوا تمہارا بھی ویسا ہی ہوگا۔
Top