Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تم کو ناگوارہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کروگے جس وقت قرآن نازل ہو رہا ہو تو وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائینگی اللہ نے ان کے بارے میں معافی دے دی اور اللہ بخشنے والا ہے علم والا ہے
بےضرورت سوالات کرنے کی ممانعت مفسر ابن کثیر نے ج 2 ص 105 بحوالہ جریر حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ (ایک دن) رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اس وقت غصے کی حالت میں تھے چہرہ انور سرخ ہو رہا تھا، آپ منبر پر تشریف فرما ہوگئے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں ہے پھر ایک اور آدمی کھڑا ہو اس نے کہا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیرا باپ حذافہ ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر ؓ کھڑے ہوئے اور (آپ کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور آپ کو راضی کرنے کے لئے) یہ پڑھنے لگے رَضِیْنَا بِا للّٰہِ رَبًّا وَّ بالْاِسْلَامِ دِیْناً وَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ نَبِیّاً وَ بالْقُرْاٰٰنِ اِمَامًا (ہم راضی ہیں اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ماننے پر اور محمد ﷺ کے نبی ماننے پر اور قرآن کو امام ماننے پر) اس کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم لوگ جاہلیت اور شرک میں تھے نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ ہمارے باپ کون ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ کا غصہ ٹھہر گیا اور آیت (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ ) نازل ہوئی۔ صحیح بخاری ج 2 ص 665 میں ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے بطور تمسخرو استہزاء پوچھا کرتے تھے، کوئی کہتا تھا میرا باپ کون ہے ! اور کوئی کہتا تھا میری اونٹنی کہاں ہے ! اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی۔ مفسر ابن کثیر نے حضرت علی ؓ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جب آیت (وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ) نازل ہوئی۔ تو بعض صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہر سال حج فرض ہے آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، حاضرین نے دوبارہ سوال کیا تو فرمایا نہیں ! (ہر سال فرض نہیں ہے) اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا واجب ہوجاتا۔ اور اگر ہر سال واجب ہوجاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت شریفہ مذکورہ بالا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْءَلُوْا) نازل فرمائی۔ اسباب نزول متعدد بھی ہوسکتے ہیں اس میں کوئی تعارض کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آیت کریمہ میں مسلمانوں کو اس بات کی ہدایت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا کرو جن کی ضرورت نہیں ہے، اور جن کے ظاہر کرنے سے سوال کرنے والے کو نا گواری ہوگی اور جواب اچھا نہ لگے گا ایک آدمی نے پوچھ لیا کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے آپ نے جواب دیدیا کہ دوزخ میں ہے بات معلوم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر جو جواب ملا وہ گوارا نہ تھا یوں تو حضرات صحابہ ؓ مسائل و احکام تو دریافت کیا ہی کرتے تھے اور سوال کرنے کا حکم بھی ہے جیسا کہ سورة نحل اور سورة انبیاء میں ارشاد ہے (فَاسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکِرْ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ) (سو سوال کرو اہل علم سے اگر تم نہیں جانتے) معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا آیت میں جن چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے ممانعت فرمائی ہے وہ ایسی چیزیں ہیں جن کی ضرورت نہ ہو۔ صاحب روح المعانی 39 ج 7 لکھتے ہیں۔ والمراد مالا خیرلھم فیہ من نحو التکالیف الصعبۃ التی لا یطیقونھا والا سرار الخفیۃ التی قد یفتضحون بھا فکما ان السؤال عن الامور الواقعۃ مستتبع لابداء ھا کذلک السؤال عن تلک التکالیف مستتبع لا یجابھا علیھم بطریق التشدید لا سائتھم الادب وترکھم ماھو الاولیٰ بھم من الاستسلام لا مراللّٰہ تعالیٰ من غیر بحث فیہ ولا تعرض عنالکیفیۃ واللکمیّۃ اھ۔ یعنی آیت بالا میں جن اشیاء کے بارے میں سوال کرنے کی ممانعت فرمائی ہے ان سے وہ سخت احکام مراد ہیں جن کی طاقت نہیں اور وہ پوشیدہ بھید کی چیزیں مراد ہیں جن کے ظاہر کرنے میں لوگوں کی رسوائی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ جس طرح گزشتہ امور کے بارے میں سوال کرنے پر نتیجہ اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کو ظاہر کیا جائے اسی طرح تکالیف شاقہ یعنی سخت احکام کے بارے میں سوال کرنا اس امر کو مستلزم ہے کہ حکماً ان احکام کو بطور سزا سوء ادبی کی پاداش میں واجب کردیا جائے، اور جو طریقہ اختیار کرنا چائے تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان لینا اور کیفیت اور کمیت کی بحث میں نہ پڑنا اس کے ترک کرنے کی وجہ سے حکم میں تشدید کردی جاتی ہے۔ پھر فرمایا (وَ اِنْ تَسْءَلُوْا عَنْھَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ) یعنی نزول قرآن کے وقت سوال کرو گے تو تمہارے سوالوں کا جواب بذریعہ وحی دیدیا جائے گا۔ اور سوال کا جواب ملے گا تو ضروری نہیں کہ سائل کی مرضی کے مطابق ہو۔ لہٰذا سوال نہ کرنا ہی صحیح ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص ؓ احکام القرآن ج 2 ص 483 میں تحریر فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں ان چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے ممانعت فرمائی ہے جن کے جاننے کی حاجت نہیں تھی مثلاً عبد اللہ بن حذافہ ؓ نے پوچھ لیا میرا باپ کون ہے ؟ اس سوال کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ حسب قاعدہ شرعیہ الولد للفراش حذافہ ہی سے ثابت النسب تھے پھر اگر واقعۃً حذافہ کے نطفہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نطفہ سے پیدا ہوئے ہوتے اور آپ ﷺ اس کو ظاہر فرما دیتے تو کس قدر رسوائی ہوتی۔ اسی طرح وہ جو ایک صحابی نے دریافت کرلیا ” کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ “ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی اگر رسالت مآب ﷺ فرما دیتے کہ ہاں ! ہر سال فرض ہے تو ساری امت کس قدر تکلیف میں مبتلا ہوجاتی۔ پھر فرمایا (عَفَا اللّٰہُ عَنْھَا) اس کی ایک تفسیر تو یہ کی گئی ہے کہ اب تک جو تم نے نا مناسب سوال کئے ہیں یہ سوال کرنا اللہ نے معاف ہیں، یعنی جو حکم نہیں کئے گئے ان کے بارے میں سوال نہ کرو۔ ہوسکتا ہے سوال کرنے سے ان کے بارے میں حکم نازل ہوجائے، اور جب تک کسی چیز کے بارے میں نفیاً اثباتاً کوئی حکم نہیں ہے اس کے بارے میں تمہیں اختیار ہے اسے کرو یا نہ کرو۔ سوال کر کے اور کرید کر اپنے اوپر کوئی چیز واجب کیوں کراتے ہو ؟ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں تم انہیں ضائع نہ کرو اور کچھ حدود مقرر فرمائی ہے تم ان سے آگے نہ بڑھو اور کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے تم ان کا ارتکاب نہ کرو۔ اور تم پر مہربانی فرماتے ہوئے بہت سی چیزوں سے خاموشی اختیار فرمائی اور یہ خاموشی بھولنے کی وجہ سے نہیں ہے لہٰذا تم ان کے بارے میں سوال نہ کرو۔ (رواہ الدار قطنی وغیرہ کمال قال النووی فی اربعینہ وقال حدیث حسن )
Top