Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 62
وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَتَرٰى : اور تو دیکھے گا كَثِيْرًا : بہت مِّنْهُمْ : ان سے يُسَارِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور سرکشی وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
اور آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھیں گے جو گناہ میں اور ظلم میں حرام کھانے میں تیزی کے ساتھ دوڑتے ہیں۔ یہ واقعی بات ہے کہ وہ اعمال برے ہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں،
(وَ تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ ) (آپ ان میں سے بہت سوں کو دیکھیں گے کہ گناہ کرنے میں اور ظلم و زیادتی میں تیزی کے ساتھ دوڑتے ہیں اور حرام کھانے میں خوب تیز ہیں) (لَبِءْْسَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) (البتہ وہ کام برے ہیں جو وہ کرتے ہیں) ۔ جھوٹے درویشوں کی بد حالی امت محمدیہ میں جو جھوٹے درویش بنے ہوئے ہیں انہوں نے دنیا حاصل کرنے کے لئے پیری مریدی اختیار کرلی ہے۔ مال داروں میں گھل مل کر رہتے ہیں، جن سے اغراض وابستہ ہیں یا وہ حکومتوں کے ملازم ہیں، ان کے ذریعہ کام نکلتا ہے، ان کی اصلاح کی کوئی فکر نہیں، اپنی ذات کا نفع سامنے رہتا ہے، ایسے درویش اور بعض علماء بھی اسی مصیبت میں مبتلا ہیں کہ حرام کھانے سے اور حرام کمانے سے اور گناہوں میں مال لگانے سے نہیں روک سکتے۔ جو لوگ قبروں کے مجاور بنے ہوئے ہیں طرح طرح سے لوگوں سے مال وصول کرتے ہیں بےنمازی ہیں اور بزرگ بنے ہوئے ہیں داڑھیاں منڈی ہوئی ہیں اور درویشی کے دعویدار ہیں حلال حرام کی تمیز کے بغیر لوگوں سے سب کچھ وصول کرلیتے ہیں بھلا ایسے لوگ کیا حق بات کہہ سکتے ہیں اور کیا گناہوں سے روک سکتے ہیں ؟ ان لوگوں کے ہم مشرب اور ہم مسلک علماء ہیں ان کے مونہوں پر لگامیں ہیں۔ قبروں پر جو عرس ہوتے ہیں ان میں خود شریک ہوتے ہیں اور یہ نہیں کہ سکتے کہ فلاں فلاں اعمال کر رہے ہو یہ شرک اور بدعت ہیں بلکہ یہ دنیا دار علماء اپنے عمل سے اپنے علم کو مشرکا نہ مبتدعانہ اعمال کی تائید میں خرچ کرتے ہیں۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کا ارشاد حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ قرآن کریم میں (درویشوں اور عالموں کی) توبیخ کے لئے اس آیت سے زیادہ سخت کوئی آیت نہیں ہے، حضرت علی ؓ نے ایک دن خطبہ دیا اور حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا اے لوگو ! تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ وہ گناہ کرتے تھے اور درویش اور اہل علم انہیں نہیں روکتے تھے جب گناہوں میں بڑھتے چلے گئے تو ان پر عذاب نازل ہوگیا لہٰذا تم امر بالمعروف کرو اور نہی عن المنکر کرو اس سے پہلے کہ تم پر وہ عذاب آئے جو ان لوگوں پر آیا تھا اور یہ بات جان لو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے نہ رزق منقطع ہوتا ہے اور نہ موت وقت سے پہلے آتی ہے۔
Top