Mutaliya-e-Quran - Al-Maaida : 62
وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَ١ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
وَتَرٰى : اور تو دیکھے گا كَثِيْرًا : بہت مِّنْهُمْ : ان سے يُسَارِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے ہیں فِي : میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور سرکشی وَاَكْلِهِمُ : اور ان کا کھانا السُّحْتَ : حرام لَبِئْسَ : برا ہے مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کر رہے ہیں
تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں
وَتَرٰى [ اور آپ دیکھیں گے ] كَثِيْرًا [ بہت سے لوگوں کو ] مِّنْهُمْ [ ان میں سے ] يُسَارِعُوْنَ [ کہ وہ لوگ باہم سبقت کرتے ہیں ] فِي الْاِثْمِ [ گناہ میں ] وَالْعُدْوَانِ [ اور زیادتی میں ] وَاَكْلِهِمُ [ اور اپنے کھانے میں ] السُّحْتَ ۭ [ ناپاک کمائی کو ] لَبِئْسَ [ یقینا بہت برا ہے ] مَا [ وہ جو ] كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ [ وہ لوگ کیا کرتے ہیں ] آیت نمبر۔ 5: 62 تا 66 طء (س) طفوء ۔ کسی چیز کی روشنی کا ختم ہوجانا ۔ آگ کا بجھ جانا ۔ (افعال ) اطفاء ۔ روشنی کو ختم کرنا ۔ آگ بجھانا ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ ق ص د (ض) قصدا ۔ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا ۔ اقصد ۔ فعل امر ہے ۔ تومیانہ روی اختیار کر۔ واقصد فی مشیک [ اور تم میانہ روی اختیار اپنی چال میں ] ۔ 1:19 ۔ قصد ۔ کسی چیز کا اوسط ۔ درمیان ۔ وعلی اللہ قصد السبیل [ اور اللہ پر ہے راستے کا اعتدال یعنی اسے واضح کرنا ] ۔ 16:9 ۔ قاصد ۔ فاعل کے وزن پر صفت ہے ۔ درمیان میں ہونے والا یعنی درمیانی ۔ متوسط ۔ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ [ اگر ہوتا کوئی قریبی سامان سفر تو وہ لوگ ضرور پیروی کرتے آپ کی ] ۔ 9 :42 ۔ (افتعال) اقتصادا۔ اہتمام سے میانہ رو ہونا ۔ مقتصد ۔ اسم الفاعل ہے ۔ اہتمام سے میانہ روی اختیار کرنے والا یعنی میانہ رو ۔ آیت زیر مطالعہ ۔ ترکیب : کثیرا صفت ہے ، اس کا موصوف رجالا محذوف ہے ۔ فی پر عطف ہونے کی وجہ سے اکلہم کا مضاف اکل مجرور ہوا اور اس مصدر نے فعل کا عمل کیا ہے ، السحت اس کا مفعول ہے ۔ اسی طرح قولہم کے مصدر قول کا مفعول الاثم ہے ۔ لولا کے بعد فعل مضارع ینھی آیا ہے ۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ہوگا ۔ (آیت نمبر ۔ 2 :64، نوٹ ۔ 1) الیھود عاقل کی جمع مکسر ہے اس لیے واحدمؤنث قالت بھی جائز ہے ۔ ید للہ مغلولۃ اگر قالت کا مفعول ہوتا تو پھر ید اللہ آتا ۔ ید کی رفع بتارہی ہے کہ یہود جس طرح کہتے تھے ، ان کی بات کو ویسے ہی یعنی (TENSE DIRECT) میں نقل کیا گیا ہے ، عربی میں اعراب کی سہولت موجود ہونے کی وجہ سے مقولہ (TENSE DIRECT) کی پہچان کے لیے کوئی شناختی نشان لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی ، جیسے کہ انگریزی میں ضرورت ہوتی ہے ۔ یدہ میں ید دراصل یدان تھا ۔ مضاف ہونے کی وجہ سے نون اعرابی گرا ہوا ہے اور ہ کی ضمیر اس کا مضاف الیہ ہے ید مؤنث سماعی ہے اس لیے اس کی خبر میں مبسوطۃ کا تثنیہ مبسوطتن آیا ہے ۔ لیریدن کا مفعول کثیرا ہے اور یہاں بھی رجالا محذوف ہے، جبکہ اس کا فاعل ماانزل ہے ۔ طغیانا اور کفرا اس کی تمیز ہیں ۔ آیت نمبر ۔ 65 ۔ 66، دنوں میں لو شرطیہ ہیں ۔ اس لیے افعال ماضی کا ترجمہ اس لحاظ سے ہوگا ۔ ساء آفاقی صداقت ہے ۔ (دیکھیں آیت نمبر ۔ 2:49، نوٹ ۔ 2) نوٹ : 1 ۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب کسی قوم میں گناہ کے کام کئے جائیں اور کوئی آدمی اس قوم میں رہتا ہے اور ان کو منع نہیں کرتا تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں پر عذاب بھیج دے ۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ کی قوم کے ایک لاکھ آدمی عذاب سے ہلاک کئے جائیں گے ، جن میں چالیس ہزار نیک لوگ ہیں اور ساٹھ ہزار بدعمل ہیں ۔ انھوں نے عرض کیا کہ رب العالمین بدکاروں کی ہلاکت کی وجہ تو ظاہر ہے لیکن نیک لوگوں کو کیوں ہلاک کیا جارہا ہے تو ارشاد ہوا کہ یہ نیک لوگ ان بدکاروں کے ساتھ کھانے پینے اور ہنسی دل لگی میں شریک رہتے تھے۔ میری نافرمانیاں اور گناہ دیکھ کر بھی ان کے چہرے پر کوئی ناگواری کا اثر تک نہ آیا (معارف القرآن )
Top