Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 77
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو (مبالغہ) نہ کرو فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : اپنا دین غَيْرَ الْحَقِّ : ناحق وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْٓا : نہ پیروی کرو اَهْوَآءَ : خواہشات قَوْمٍ : وہ لوگ قَدْ ضَلُّوْا : گمراہ ہوچکے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَضَلُّوْا : اور انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت سے وَّضَلُّوْا : اور بھٹک گئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
آپ فرما دیجئے اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں ناحق کا غلونہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو پہلے گمراہ ہوچکے ہیں اور انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کیا اور سیدھے راستے سے بہک گئے۔
اہل کتاب کو غلو کرنے کی ممانعت اس کے بعد اہل کتاب کو غلو فی الدین سے بچنے کا حکم دیا، ارشاد ہے (قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ ) (آپ فرما دیجئے اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو) اہل کتاب نے اپنے دین میں غلو کر رکھا تھا، حد سے زیادہ بڑھ جانے کو غلو کہتے ہیں اور یہ غلو ناحق ہوتا ہے کیونکہ حق کی حد کے اندر رہنا ہی حق ہے، نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اتنا آگے بڑھایا کہ خدا اور خدا کا بیٹا بنا دیا اور ان کی والدہ کو بھی معبود مان لیا۔ اور یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا بنا دیا حالانکہ خالق اور مخلوق میں رشتہ نہیں ہوسکتا اور کوئی مخلوق معبود بھی نہیں ہوسکتی ان لوگوں نے دین میں غلو کردیا اور وہ باتیں دین میں داخل کردیں جو اس دین میں نہ تھیں، جو دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واسطہ سے ان کے پاس آیا تھا چونکہ دین میں غلو اپنی ذاتی خواہشوں سے ہوتا ہے اس لیے فرمایا (وَ لَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ ) (اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو پہلے سے گمراہ ہوچکے ہیں) انہوں نے اپنی خواہشات کو سامنے رکھا اور دین میں غلو کیا تم ان کی پیروی نہ کرو اور دین میں غلو نہ کرو۔ آنحضرت سرور عالم ﷺ کی بعثت سے پہلے یہود و نصاریٰ کے اکابر نے اپنی ذاتی خواہشوں اور رایوں کے مطابق اپنے دین کو بدل دیا تھا اور اس میں عقائد باطلہ تک شامل کردیئے تھے خود بھی گمراہ ہوئے (وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا) (اور بہت سوں کو گمراہ کیا) پھر خاتم النبیین ﷺ کی بعثت کے بعد بھی حق واضح ہوتے ہوئے گمراہی پر جمے رہے (وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآء السَّبِیْلِ ) (اور سیدھے رستے سے بھٹک گئے ) ۔ امت محمدیہ کو غلو کرنے کی ممانعت دین میں غلو کرنا امتوں کا پرانا مرض ہے آنحضرت سرور عالم ﷺ کو خطرہ تھا کہ کہیں آپ کی امت بھی اس مرض مہلک میں مبتلا نہ ہوجائے، آپ نے فرمایا لاتطرونی کما اطرت النصاریٰ ابن مریم فانما انا عبدہ فقولوا عبداللّٰہ و رسولہ۔ یعنی میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جیسے نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا، میں تو بس اللہ کا بندہ ہو، میرے بارے میں یوں کہو عبد اللہ و رسولہ (کہ اللہ بندہ اور رسول ہیں) (رواہ البخاری ج 1 ص 490) آنحضرت سرور عالم ﷺ کی تنبیہ کو دیکھیں اور پھر ان لوگوں کو دیکھ لین جو رسول اللہ ﷺ کو تمام خدائی اختیارت سونپ دیئے جانے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور قرآن کی تصریحات کے باوجود آپ کی بشریت کے منکر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس عقیدہ کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ سے بہت بڑی محبت کرنے والے بن گئے سورة الاسراء میں فرمایا ہے۔ (قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا) (آپ فرما دیجئے کہ میرا رب پاک ہے میں نہیں ہوں مگر ایک بشررسول) ایک عالم نما جاہل نے تو غضب ہی کردیا سورة کہف کی آیت (قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ) کے بارے میں کہہ دیا کہ اس میں مانافیہ ہے اپنے خیال میں بہت دور کی کوڑی لائے لیکن انہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ اِنَّ جملہ مثبتہ کی تحقیق کے لئے آتا ہے جملہ منفیہ کے لئے نہیں آتا۔ صحیح بخاری ص 1065 میں ہے کہ آپ نے فرمایا اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌکہ میں ایک بشر ہی ہوں، اللہ جل شانہ، تو آپ سے فرمائیں کہ اپنے بارے میں اعلان کردیں کہ میں تمہارا جیسا بشر ہوں لیکن محبت کے دعویدار کہتے ہیں کہ نہیں آپ بشر نہیں تھے یہ عجب قسم کی محبت ہے ان میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ میں ظاہر میں بشر ہوں یہ لفظ ظاہراً اپنی طرف سے بڑھایا گیا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک قرآن میں تحریف ہوجائے تو کچھ حرج نہیں مگر ان کی بات پچ باقی رہے (العیاذ باللہ) قرآن مجید میں فرمایا ہے (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰھَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ لَا یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھَآاِلاَّ ھُوَ ) (وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب ہوگی ؟ اس کے جواب میں کہہ دیجئے اس کی خبر تو میرے رب ہی کے پاس ہے اس کے وقت پر وہی اسے ظاہر فرمائے گا) اس میں بات کی تصریح ہے کہ قیامت کے آنے کا وقت صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔ لیکن حب نبی ﷺ کے دعویدار کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو متعین طریقہ پر قیامت کے وقت کا بھی علم تھا۔ یہ عجیب محبت ہے جو قرآن کی تصریحات کے خلاف عقیدہ رکھنے پر آمادہ کر دے۔ ملا علی قاری (رح) اپنی کتاب الموضاعات الکبیر میں لکھتے ہیں : وقد جاھر بالکذب بعض من یدعی فی زماننا العلم وھو متشبع بمالم یعط ان رسول اللہ ﷺ کان یعلم متی تقوم الساعۃ (یعنی ہمارے زمانے میں بعض ایسے لوگ جو علم کے دعویدار ہیں حالانکہ ان کے پاس علم نہیں ہے انہوں نے صاف صریح جھوٹ بولا اور یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو علم تھا کہ قیامت کب قائم ہوگی) ۔ جس طرح عقائد میں محبت کے دعویداروں نے غلو کیا ہے اسی طرح سے مرنے جینے سے متعلق بہت سی رسمیں اپنی طرف سے تجویز کر کے دین میں داخل کردیں اپنی رسموں اور بدعتوں کو جاری رکھنے کے لئے اپنی طرف سے حد یثیں بھی تراش لیتے ہیں اور خالص شرکیہ افعال کو دین کا جزو بنائے ہوتے ہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ من خرافاتِھِم
Top