Tafseer-e-Baghwi - Al-Hajj : 42
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ١ۖۗ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَ نُوْرُهُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖٓ : اللہ پر اور اس کے رسولوں پر اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ ڰ : وہ سچے ہیں وَالشُّهَدَآءُ : اور شہید ہیں عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ : اپنے رب کے نزدیک لَهُمْ اَجْرُهُمْ : ان کے لیے ان کا اجر ہے وَنُوْرُهُمْ ۭ : اور ان کا نور ہے وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ : اور انہوں نے جھٹلایا ہماری آیات کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : جہنم والے ہیں
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یہ وہ لوگ ہیں جو بڑی سچائی والے ہیں اور جو شہداء ہیں اپنے رب کے پاس ہیں ان کے لیے ان کا اجر اور ان کا نور ہوگا اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا یہ لوگ دوزخ والے ہیں۔
صدیقین کون ہیں ؟ پھر فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصِّدِّيْقُوْنَ۠﴾ (اور جو لوگ اللہ پر اور اسکے رسولوں پر ایمان لائے یہ لوگ صدیق ہیں) یعنی بہت زیادہ سچائی اختیار کرنے والے ہیں جو پکی تصدیق ہو جس میں ذرا سا بھی شائبہ شک اور تردد کانہ ہو وہ ایمان حقیقی ہے۔ پھر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قول و فعل میں صدق یعنی سچائی کا دھیان رہے اردو میں تو لفظ سچ اور سچائی عرف عام کے اعتبار سے صرف اقوال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن عربی محاورات میں لفظ صدق اقوال اور افعال دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح جھوٹ بھی اقوال اور اعمال دونوں میں مستعمل ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول للہ ! میری ایک سوکن ہے اگر میں جھوٹ موٹ (اسے جلانے کے لیے) یوں کہہ دوں کہ شوہر نے مجھے یہ کچھ دیا ہے اور حقیقت میں نہ دیا ہو تو کیا اس میں کچھ گناہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ : المتشبع بمالم یعط کلابس ثوبی زور کہ جس شخص نے جھوٹ موٹ یہ ظاہر کیا کہ مجھے یہ چیز دی گئی ہے حالانکہ وہ اسے نہیں دی گئی اس کی ایسی مثال ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے (یعنی سر سے پاؤں تک وہ جھوٹا ہی جھوٹا ہوگیا) اس حدیث کا مفہوم بہت عام ہے ہر قسم کے جھوٹے دعوے داروں کو شامل ہے دعویٰ قولی ہو یا فعلی، علمی ہو یا عملی ﴿ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ 1ؕ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَ نُوْرُهُمْ 1ؕ﴾ (اور جو شہداء ہیں ان کیلئے ان کا اجر ہے اور ان کا نور ہے) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ یہ جملہ مستانفہ ہو اور اگر ماسبق پر معطوف مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ صدیقین اور شہداء اپنے رب کے پاس یعنی اس کے حکم اور علم میں صدیق اور شہید ہیں اور ان کے لیے اس کا اجر ہے اور ان کا نور ہے۔ (معالم التنزیل صفحہ 298: ج 4) معنی کے اعتبار سے آیت کے عموم الفاظ میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یعنی یہ لوگ صدیق ہیں اور شہداء ہیں۔ روح المعانی میں ابن ابی حاتم سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے ایک دن اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا کہ تم سب صدیق ہو اور شہید ہو حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ اے ابوہریرہ ! آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ فرمایا کہ آیت کر یہ ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا باللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ ﴾ (آخر تک پڑھ لو) اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ﴿ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ﴾ سے وہ لوگ مراد لیے جائیں جو کمال ایمان سے متصف ہوں اور یہ اس وقت متحقق ہوگا جب کوئی شخص ایسی طاعات میں لگے جو کمال ایمان والی طاعات ہوں کیونکہ جو شخص مومن ہوتے ہوئے شہوات میں منہمک ہو اور طاعات سے غافل ہو اسے صدیق اور شہید قرار دینا بعید معلوم ہوتا ہے۔ سورة نساء کی آیت کریمہ ﴿وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ 1ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ0069﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیقین اور شہداء اور صالحین بڑے مرتبہ کے لوگ ہیں عام طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والوں کو ان حضرات کے ساتھ ہونے کا شرف ملے گا جو ان کے اچھے رفیق ہوں گے دونوں آیتوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ یوں تو ہر مومن صدیق اور شہید ہے لیکن بہت سے حضرات کو ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے بڑے درجات حاصل ہوں گے اور بہت سے دوسرے اہل ایمان کو بھی ان کی معیت حاصل ہوجانے کے مواقع عطا کیے جائیں گے گودرجات میں فرق مراتب بہت زیادہ ہوگا لیکن باوجود باہمی ملاقاتوں اور زیارتوں کے جن کی تصدیق ایمانی بڑے درجہ کے کمال کی پہنچی ہوئی ہو ان کو خصوصی طور پر صدیق کہا گیا ہے یہ بلند رتبہ کے حضرات ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے صدیق کا لقب دیا جب اسلام کی دعوت سامنے آئی تو انہوں نے فوراً لبیک کہا اور آخری دن تک نہایت اخلاص کے ساتھ اپنی جان و مال سے آپ کی خدمت میں حاضر رہے حتیٰ کہ ایک مرتبہ جب آپ نے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو سارا ہی مال لاکر خدمت عالی میں حاضر کردیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ احد پہاڑ پر چڑھ گئے، آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر عثمان ؓ بھی تھے۔ پہاڑ حرکت کرنے لگا تو آپ نے اس پر قدم مبارک مار کر فرمایا کہ اے احد ٹھہر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی ہے اور ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں ( یعنی حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ ۔ (رواہ البخاری) اس میں حضرت ابوبکر ؓ کو صدیق فرمایا اور باقی دو حضرات کے شہید ہونے کی پیشین گوئی فرمائی بڑے درجہ کے مومنین صالحین کو صدیقین کی معیت نصیب ہوگی اس بارے میں بعض خصوصی اعمال کا تذکرہ بھی حدیث شریف میں مذکور ہے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سچا امانت دار تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (رواہ الترمذی فی البیوع) سورة مریم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں ﴿ صِدِّيْقًا نَّبِيًّا 0041﴾ فرمایا ہے اور سورة المائدہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو صدیقہ بتایا ہے ﴿ وَ اُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ ﴾ معلوم ہوا ہے کہ صدیقیت میں فرق مراتب ہے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی تھے ان پر ایمان لانے والے بھی صدیق تھے (اور ان میں فرق مراتب تھا) اور عامۃ المسلمین بھی صدیق ہیں کیونکہ کمال تصدیق کے بغیر کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا۔ سورة نساء کی آیت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کے لیے صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہونے کی جو خوشخبری دی ہے اس سے اونچے درجے کے صدیقین اور شہداء اور صالحین مراد ہیں۔ شہداء سے کون حضرات مراد ہیں ؟ یہاں سورة الحدید میں شہداء سے کون لوگ مراد ہیں اس کے بارے میں دو قول ہیں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان سے جہاد اور قتال کے موقع پر شہید ہونے والے مراد ہیں ان کے بڑے اور بلند درجات ہونے کو سبھی جانتے ہیں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ شہداء سے بمعنی شاہدین یعنی گواہی دینے والے مراد ہیں قیامت کے دن بہت سی گواہیاں ہوں گی ہر نبی اپنی امت کے بارے میں گواہی دے گا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ حضرت انبیائے کرام کے بارے میں گواہی دیں گے کہ واقعی انہوں نے تبلیغ کی تھی اور امت محمدیہ بھی اس بات کی گواہی دے گی کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے تبلیغ کی اور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے کہ یہ سچے ہیں ان کی گواہی صحیح ہے اس کی تفصیل سورة بقرہ، سورة نساء اور سورة الحج میں گزر چکی ہے۔ ان گواہیوں کے علاوہ دوسری گواہیاں بھی ہوں گی اور گواہی دینے والوں کو اس فضیلت سے نوازا جائے گا کہ وہ میدان آخرت میں دوسرے لوگوں کے خلاف گواہ بن کر آئیں گے۔ جب اللہ نے اتنی بڑی فضیلت دی ہے کہ قیامت کے دن گواہی دینے والے بنیں گے تو اپنے اس مرتبہ کی لاج رکھیں اور ان چیزوں سے پرہیز کریں جو مقام شہادت سے محروم کرنے کا ذریعہ بنیں۔ حضرت ابو درداء ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ لعنت کی کثرت کرنے والے قیامت کے دن نہ شہداء ہوں گے نہ شفعاء ہوں گے (یعنی ان کو نہ گواہی دینے کا مرتبہ ملے گا نہ گنہگاروں کو بخشوانے کے لیے شفاعت کرنے کا مقام دیا جائے گا) دونوں چیزوں سے محروم رہیں گے۔ (رواہ مسلم صفحہ 322: ج 2) اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صدیق کے لیے لعان ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ (رواہ مسلم صفحہ 622: ج 2) یعنی صدیق کو اپنی زبان محفوظ رکھنی چاہیے تجھ مجھ پر انسانوں پر جانوروں، شاگردوں پر لعنت بھیجتا رہے یہ صدیق کا کام نہیں (بچوں کے بہت سے استاد اس میں مبتلا ہیں) قال البغوی فی معالم التنزیل اختلفوا فی نظم ھذہ الایة منھم من قال : ھی متصلة بما قبلھا والو او واؤ النسق، واراد بالشھداء المومنین المخلصین، وقال الضحاک : ھم الذین سمیناھم۔ وقال مجاھد : كل مومن صدیق وشھید، وتلا ھذہ الایة وقال قوم : تم الکلام عند قولہ : (ھم الصدیقون) ثم ابتدا فقال : والشھداء عند ربھم، والو اؤ واؤ الاستناف، وھو قول ابن عباس ومسروق وجماعة، ثم اختلفوا فیھم فقال قوم ھم الانبیاء الذین یشھدون علی الامم یوم القیامة، یروی ذلک عن ابن عباس وھو قول مقاتل بن حبان۔ وقال مقاتل بن سلیمان : ھم الذین استشھدوا فی سبیل اللہ (لھم اجرھم) بما عملوا من العمل الصالح (ونورھم) علی الصراط۔ آیت کے ختم پر فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ (رح) 0019﴾ جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ لوگ دوزخ کے عذاب میں ہوں گے) ۔
Top