Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 106
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا اَلْمَلِكُ : بادشاہ الْقُدُّوْسُ : نہایت پاک السَّلٰمُ : سلامتی الْمُؤْمِنُ : امن دینے والا الْمُهَيْمِنُ : نگہبان الْعَزِيْزُ : غالب الْجَبَّارُ : زبردست الْمُتَكَبِّرُ ۭ : بڑائی والا سُبْحٰنَ : پاک اللّٰهِ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
وہ اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، بہت پاک ہے، باسلامت ہے، امن دینے والا ہے، عزیز ہے، جبار ہے، بڑی عظمت والا ہے، اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو لوگ شرک کرتے ہیں،
ثالثاً : اَلْمَلِكُ فرمایا ملک بادشاہ کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شانہ حقیقی بادشاہ ہے دنیا میں جو بادشاہ ہیں وہ سب اس کے بندے ہیں اور سب اس کی مخلوق ہیں۔ وہ ملک الملوک یعنی سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور وہ ہر چیز کا مالک ہے اور سارا ملک اسی کا ہے۔ سورة یٰسین میں فرمایا : ﴿ فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (رح) 0083﴾ رابعاً : الْقُدُّوْسُ فرمایا، یعنی وہ ہر نقصان اور ہر عیب سے بہت زیادہ پاک ہے، یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ وتروں کا سلام پھیر کر تین مرتبہ ذرا اونچی آواز سے سبحان الملک القدوس پڑھا کرتے تھے اور القدوس کی دال کے پیش کو کھینچ کر پڑھتے تھے یعنی واؤ ساکن جو حرف مدہ ہے۔ اس کے مد کو مد طبیعی سے زیادہ ادا کرتے تھے۔ خامساً : السَّلٰمُ فرمایا۔ یہ لفظ مصدر ہے، علماء نے لفظ السَّلٰمُ کے کئی معنی لکھے ہیں اول یہ کہ وہ باسلامت ہے ہر طرح سالم ہے اس کی ذات وصفات میں کبھی بھی کوئی کمی آنے والی نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ وہ سلامتی دینے والا ہے۔ سادساً : الْمُؤْمِنُ فرمایا اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ وہ امن وامان دینے والا ہے، دنیا میں اپنے بندوں کو امن وامان سے رکھتا ہے، اہل ایمان کے قلوب کو اطمینان عطاء فرماتا ہے، نیک بندوں کو قیامت کے دن اطمینان عطا فرمائے گا، جس کے بارے میں ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ ﴾ فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ ﴿ يٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ0068﴾ اور بعض حضرات نے الْمُؤْمِنُ کا یہ معنی بتایا ہے کہ اس نے اپنی مخلوق سے وعدہ فرما لیا ہے کہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ وقال بعضھم معناہ ھو ذوالامن من الزوال لا ستحالة علیہ سبحانہ وتعالیٰ وفی معناہ اقوال اخری ذکرھا صاحب الروح۔ سابعًا : الْمُهَيْمِنُ فرمایا اس کے معنی ہے نگران اللہ تعالیٰ شانہ اپنی ساری مخلوق کا نگران اور نگہبان ہے۔ قال صاحب الروح ای الرقیب الحافظ لکل شی مُفَیعِلٌ من الامن بقلب ھمزتہ ھاء والیہ ذھب غیر واحد ثم استعمل بمعنی الرقیب والحفیظ علی الشی۔ ثامنا : الْعَزِيْزُ ، فرمایا یعنی وہ غالب ہے زبردست ہے اس کے ارادہ سے اسے کوئی چیز روکنے والی نہیں وہ جو چاہے کرے اسے ہر چیز کا اختیار ہے اور وہ ہر طرح صاحب اقتدار ہے۔ تاسعا : الْجَبَّار فرمایا، یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے جو جبر یجبر سے ماخوذ ہے بعض حضرات نے اس کو معروف معنی میں لیا ہے یعنی وہ جبار اور قہار ہے وہ اپنی مخلوق میں جو بھی تصرف کرنا چاہے کرسکتا ہے اسے کوئی بھی کسی تصرف سے روک نہیں سکتا۔ اور بعض حضرات نے اس کو مصلح کے معنی میں لیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ خرابیوں کو درست کرنے والا ہے ٹوٹی ہوئی چیزوں کو جوڑنے والا ہے۔ احوال کی اصلاح کرنے والا ہے۔ عاشراً : الْمُتَكَبِّرُ فرمایا، یہ باب تفعل سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اس کا معنی ہے الکامل فی الکبریاء اسی لئے اوپر اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ وہ بڑی عظمت والا ہے۔ مخلوق کے لئے یہ لفظ بولتے ہیں تو یہ باب تفعل تکلف کے معنی میں ہوتا ہے اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ فلاں شخص بڑا بنتا ہے، بڑائی اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہے مخلوق کو بڑائی بگھارنا جائز نہیں۔ اگر کسی مخلوق میں کوئی بڑائی ہے تو اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔ جس نے دی ہے اس کا شکر ادا کرے نہ یہ کہ اس کی مخلوق کو حقیر جانے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھے۔ سورۃ الجاثیہ کے ختم پر فرمایا ﴿وَلَہُ الْكبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكیْمُ﴾ (اسی کے لئے بڑائی ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور وہ زبردست ہے حکمت والا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : الکبریاء ردائی والعظمة ازاری فمن نازعنی وا حدا منھا ادخلتہ النار (رواہ المسلم) یعنی کبریائی اور عظمت میری خاص صفات ہیں سو جو شخص ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی منازعت کرے گا میں اسے دوزخ میں ڈال دوں گا۔
Top