Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 161
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓئٰتِكُمْ١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قِيْلَ : کہا گیا لَهُمُ : ان سے اسْكُنُوْا : تم رہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : شہر وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ : جیسے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : حطۃ (بخشدے) وَّادْخُلُوا : اور داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے نَّغْفِرْ : ہم بخشدیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطِيْٓئٰتِكُمْ : تمہاری خطائیں سَنَزِيْدُ : عنقریب ہم زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب ان سے کہا گیا کہ سکونت کرو اس بستی میں اور کھاؤ اس میں سے جہاں سے چاہو، اور کہو کہ ہمارے گناہ معاف ہوں۔ اور دروازہ میں جھکے ہوئے داخل ہوجاؤ۔ ہم بخش دیں گے تمہاری خطاؤں کو، ہم عنقریب اچھے کام کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔
ایک بستی میں داخل ہونے کا حکم اور بنی اسرائیل کی نافرمانی : تیسری اور چوتھی آیت میں ذکر ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک بستی میں رہنے کا حکم فرمایا تھا ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس بستی میں خشوع کے ساتھ جھکے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہونا۔ ان ظالموں نے قولاً و عملاً دونوں طرح سے نافرمانی کی اور اس بات کو بدل دیا جس کا حکم فرمایا گیا تھا۔ عملاً تو یہ کیا کہ بجائے جھکے ہوئے داخل ہونے کے بچوں کی طرح گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے جس میں ایک طرح کا استہزاء ہے اور معافی مانگنے کا جو حکم ہوا تھا اس کی خلاف ورزی یوں کی کہ حِطَّۃٌ کی جگہ حَبَّۃٌ فِیْ شَعِیْرَۃٍ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس بستی سے بیت المقدس مراد ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے اریحا مراد ہے۔ مفسر ابن کثیر نے کہا ہے کہ پہلا قول ہی صحیح ہے کیونکہ یہ لوگ مصر سے آکر اپنے علاقہ ارض مقدس میں جا رہے تھے اور اریحا ان کے راستہ میں نہیں پڑتا اور یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کا نہیں ہے بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں حیران و سرگردان پھرنے کے بعد جب حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانہ میں بیت المقدس جانا نصیب ہوا اس وقت کی بات ہے جب ان لوگوں نے حکم کی خلاف ورزی کی تو اللہ جل شانہٗ نے ان پر عذاب بھیج دیا، جسے (رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ ) سے تعبیر فرمایا۔ سورة بقرہ میں (بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ) فرمایا اور سورة اعراف میں (بِمَا کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ ) فرمایا یعنی یہ عذاب ان کی نا فرمانیوں اور ان کے ظلم کی وجہ سے بھیجا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی جو نتیجہ کے اعتبار سے اپنی جانوں پر ظلم ہے کیونکہ اس کی وجہ سے گرفت ہوجاتی ہے۔ حضرات مفسرین نے فرمایا ہے ان لوگوں پر جو عذاب بھیجا گیا تھا طاعون تھا۔ مفسر ابن کثیر نے آنحضرت سرور عالم ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے کہ الطاعون رجزٌ عَذَابٌ عذب بہ من کان قبلکم (یعنی طاعون رجز ہے جو عذاب ہے اس کے ذریعے تم سے پہلی امتوں کو عذاب دیا گیا) ۔ من وسلویٰ اترنے اور پتھر سے چشمے پھوٹنے اور ایک بستی میں جھکے ہوئے داخل ہونے اور معافی مانگنے کا حکم پھر بنی اسرائیل کی قولاً و فعلاً خلاف ورزی پر عذاب نازل ہونا سورة بقرہ (رکوع 6، 7) میں گزر چکا ہے۔ وہاں ہم نے کچھ زیادہ تفصیل لکھ دی ہے اس کی مراجعت کرلی جائے۔ (انوار البیان جلد اول)
Top