Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 161
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓئٰتِكُمْ١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قِيْلَ : کہا گیا لَهُمُ : ان سے اسْكُنُوْا : تم رہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : شہر وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ : جیسے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : حطۃ (بخشدے) وَّادْخُلُوا : اور داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے نَّغْفِرْ : ہم بخشدیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطِيْٓئٰتِكُمْ : تمہاری خطائیں سَنَزِيْدُ : عنقریب ہم زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب ان سے کہا گیا کہ تم اس بستی میں آباد ہو جائو۔ اور اس میں جہاں سے چاہو کھائو اور پیو اور یہ کہو کہ ہمارے گناہ معاف ہوں اور دروازے میں جھکے جھکے داخل ہونا تو ہم تمہاری خطائوں کو معاف کردیں گے اور بہت جلد ہم نیک کام کرنے والوں کے اجر میں اضافہ کردیں گے۔
تشریح : آیت نمبر ا 16 تا 162 آپ نے اس سے پہلے کی آیات میں یہ پڑھ لیا ہے کہ بنی اسرائیل جنہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں بہت عروج حاصل ہوا اور مصر کے اہم مقام پر بنی اسرائیل آباد ہوگئے تھے۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد آل فرعون نے مصر کی سلطنت پر قبضہ کرلیا اور بنی اسرائیل کو ذلیل و خوار کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ اس قوم کی ذلت و خواری جب انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ نے قوم بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جنہوں نے اس قوم کو یہ بات اچھی طرح سمجھادی کہ قومیں جب اپنی ذندگی کا مقصد کھو بیٹھتی ہے تو پھر ان کی کوئی قدرو قیمت نہیں رہتی ۔ اور قوموں کی زندگی کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ فرمایا کہ یہ مقصد اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری اختیار کرکے اس کے دین کی سربلندی کے لئے مر مٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے ۔ قوم بنی اسرائیل اس بات کو سمجھ گئی اور اس نے فرعون جیسی طاقت سے ٹکرا نے کا عزم کرلیا اور پھر یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ یہ قوم جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے راتوں رات مصر سے نکل گئی۔ جب کوئی قوم اللہ نے بنی اسرائیل کو سمندر کے دوسرے کنارے پر اس طرح پہنچادیا کہ سمندر بھی راستہ دینے پر مجبور ہوگیا لیکن جب فرعون ان سمندری راستوں میں داخل ہوا تو وہی پانی اس طرح آپس میں مل گیا کہ فرعون اور اس کا لشکر اسی سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کی ایک بہت بڑے دشمن سے چھوٹ گئی۔ صحرائے سینا سے گذرتے ہوئے اللہ نے ان لاکھوں بنی اسرائیل کو ایک ایسا انتظام عطا فرمایا کہ ان کی بارہ جماعتیں بناکر اس پر ایک ایک نگراں بنادیا گیا تا کہ اپنے معاملات زندگی میں ہر تکلیف سے محفوظ رہیں ۔ ان کو زندگی گذارنے کے لئے توریت جیسی کتاب دی گئی جس میں وہ تمام آئین و قوانین دیئے گئے تھے جن کی روشنی میں وہ زندگی کے تاریک راستوں میں آسانی سے چل سکتے تھے۔ مگر وہ اللہ کے دین کو اپنانے کے بجائے پھر ایک دفعہ اللہ کی نافرمانی کے راستے پر چل پڑے ۔ جب ان سے کہا گیا کہ وہ ملک شام کو جہاد کرکے فتح کریں تو اس قوم کی قوت و طاقت سے اتنے مرعوب ہوگئے کہ انہوں نے نہ صرف جہاد سے انکار کردیا بلکہ گستاخی کی انتہا کرتے ہوئے یہاں تک کہہ اٹھے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) اگر تمہیں جہاد کرنے کا اس یا شوق ہے تو تم اور تمہارا معبود اس قوم سے جا کر جہاد کرلو (ہم تو یہاں بیٹھے ہیں جب فتح حاصل ہوجائے تو ہمیں بتا دینا آکر اس پر قبضہ کرلیں) ۔ ۔۔ ۔ یہ اتنی بڑی نافرمانی تھی جس کی سزا ضروری تھی جنانچہ ان کو اس کستاخی کی سزا یہ دی گئی کہ وہی ملک جو ادنیٰ سی جدو جہد کے بعد حاصل ہوسکتا تھا وہ ان سے چالیس سال کے لئے دور کردیا گیا اور صحرائے سینا میں ان کو اس طرح بھٹکا دیا گیا کہ وہ ہر روز صبح سے شام تک نکلنے کا راستہ تلاش کرتے مگر جب اگلے دن سو کر اٹھتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ گذشتہ صبح کو وہ جہاں سے چلے تھے وہ پھر وہین پر ہیں۔ اسی طرح چالیس سال تک وہ سی میدان تیہ میں سر گرداں رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) ان کو سمجھاتے رہے لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی کہ جب نبی موجود ہیں تو ان کے بغیر زندگی کی منزل کیسے مل سکتی ہے لیکن وہ اپنے زعم اور گھمنڈو میں یہی سمجھتے رہے کہ ہم خود ہی راستہ تلاش کرلیں گے۔ اسی دوران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاؤں سے اللہ نے ان کو اس بیا بان صحرا میں پینے کے لئے پانی کھانے کیلئے من وسلویٰ اور سائے کے لئے بادل کا سایہ عطا فرمایا۔ لیکن وہ ان نعمتوں پر شکرادا کرنے کے بجائے اس کو اپنا حق سمجھنے لگے ان کی نافرمانی کا مزاج اس قدر پختہ ہوچکا تھا کہ جب چالیس سال کے بعد قوم بنی اسرائیل سے اس صحرا نوردی کے عذاب کو ہٹا دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جائو سامنے وہ شہر ہے جہاں سے تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جس سے تم چالیس سال تک محروم رہے لیکن ایک شرط ہے کہ جب تم اس شہر میں داخل ہو تو عام فاتحین کی طرح شور مچاتے اور بدمستی سے داخل ہونا اور زبان پر یہ کلمہ رکھنا کہ الہی شکر ہے ہم توبہ کرتے ہیں ۔ اگر تم نے ادب و احترام اور شکر کا طریقہ اختیار کیا تو اس سے بھی زیادہ نعمتیں عطا کی جائیں گی ۔ چالیس سال کی سزا بھگتنے کے بعد جب یہ قوم اس بستی میں داخل ہوئی تو اس نے تمام وعدوں اور اللہ کے احکامات کو بھلادیا اور تکبر اور غرور کے ساتھ داخل ہوئے اور زبان پر توبہ کے کلمات کے بجائے دنیا طلبی کے کلمات جاری ہوگئے۔ انہوں نے اس شہری زندگی کی تمام بد مستیوں کو اختیار کرنا شروع کردیا اور جب نافرمانی کی انتہا کردی تو پھر اللہ نے ان پر ” طاعون “ جیسی بیماری کا عذاب مسلط کردیا جس لاتعداد اسرائیل مر کھپ گئے۔ یہ کون سی بستی تھی۔ اس کے متعلق صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مفسرین کے بقول اس بستی کا نام ” اریحا “ تھا۔ ممکن ہے اس بستی کا کوئی اور بھی نام ہو۔ یہاں بحث اس شہر کے نام سے نہیں ہے بلکہ بنی اسرائیل کی اس نافرمانی اور ان پر عذاب سے ہے جو ان کو دیا گیا تھا۔ بنی اسرائیل کی زندگی سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر وہ اپنے نبی کا کہا مانتے۔ اطاعت کرتے تو جس اللہ نے صحرا میں کھانا۔ ۔ پانی اور سایہ عطا کیا تھا جس نے بغیر کیس جنگ کے ایک ملک عطا کردیا تھا اگر وہ اللہ کی شکر گذاری کا طریقہ اختیار کرتے تو اللہ ان کو اس سے بھی زیادہ نعمتوں سے نواز تا لیکن بد قسمتیوں میں اپنے انجام کو بھول گئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل چالیس سال تک صحرا سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتے رہے مگر وہ صبح کو جہاں سے چل کر شام کو پہنچتے تھے اگلے دن معلوم ہوتا کہ وہ تو وہیں ہیں جہاں سے چلے تھے اگر وہ اپنی مرضی کے بجائے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بات مانت لیتے تو اور شکر کا راستہ اختیار کرلیتے تو ایک دن میں ان کو شہری زندگی کی راحتیں نصیب ہوجاتیں اور اس در بدری سے نجات پالیتے اگر غور کیا جائے تو آج ہماری زندگیاں بھی اس کو بیل کی طرح ہو کر رہ گئی ہیں کہ ہم برسوں محنت کے بعد جب اپنی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین و دنیا کے اعتبار سے جہاں سے چلے تھے وہیں پر آج بھی موجود ہیں۔ دوسرے یہ کہ جب ہمیں تنگیوں اور پریشانیوں کے بعد راحت اور سکون ملتا ہے تو ہم ایسے بدمست ہوجاتے ہیں کہ ہمیں آخرت اور اس پر چلنے والے برے لگتے ہیں کیا ہم اس آئینہ میں دیکھ کر یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ اس آئینہ میں ہمیں اپنا عکس تو نظر نہیں آرہا ہے۔ اگر ہمیں بنی اسرائیل جیسا محسوس ہو تو اللہ سے توبہ کرنی چاہیے اور نبی مکرم ﷺ کے دامن اطاعت و محبت سے وابستگی اختیار کر کے اپنی دنیا اور آخرت کے معاملے کو درست کرلینا چاہیے۔ پھر ایسانہ ہو کہ زندگی میں فرصت عمل نہ رہے۔
Top